کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 83
ہے، مگر وہ اخلاقیات اور نفسیات کے میدان میں بہت پیچھے ہے، ان میدانوں میں اس کے انحطاط پر یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سائنس جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، اخلاقیات کے میدان میں اس کا تنزل اور انحطاط اسی رفتار سے زیادہ ہورہا ہے۔(۱۰) ان حالات میں خصوصاً کسی ایسی رکاوٹ کی ضرورت ہے، جو سائنس کو ان تنزلیوں کا شکار ہونے سے روک سکے، اور اسے ایک ایسا مربی درکار ہے، جو اسے بتا سکے کہ اسے کیا کرنا ہے، اور کن اُمور سے اپنے آپ کو باز رکھنا ہے؟ مختصر لفظوں میں یہ کہ اس کی حدودِ کار کیا ہیں ؟ جدید سائنسی تحقیقات و ایجادات کے بعد اس کی ضرورت یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے عوامل سامنے آرہے ہیں ، جن کی موجودگی پوری انسانیت کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ ان کی مثال میں دو چیزوں :مہلک ایٹمی و جراثیمی ہتھیار اور سائنسی ایجادات سے متاثر ہونے والے عالمی ماحول کو پیش کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے پوری دنیا میں موجود امن پسند اور دردِ دل رکھنے والے اصحابِ علم اور اصحابِ فکر ونظر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس خطرے کو بھی مذہب اور بالخصوص اسلام ہی ٹال سکتا ہے جو اس سمت میں بھی واضح اور دوٹوک رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا سادہ اور واضح اُصول یہ ہے کہ جو چیزیں انسانیت کے لئے مفید ہیں ، وہ اختیار کرنا ضروری ہیں ۔ اور جن سے انسانوں بلکہ کائنات کو کسی بھی قسم کے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس سے احتراز ضروری ہے، اور اگر اس سے فوائد بھی وابستہ ہوں تو ایسی تدابیر اختیار کی جائیں ، جن سے اس کی مضرت ختم ہوجائے… یہ ہے اسلامی نقطہ نظر کاخلاصہ! یہ صورتِ حال عرصے سے اہل علم کو مضطرب کئے ہوئے ہے اور ا س کا احساس غیر مسلم مفکرین کو بھی ہے، اور غوروفکر کے بعد وہ بھی اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مشکل سے نکلنے کا واحد حل مذہب ہے۔ ریان ایپل یارڈ (Reyenaple Yard) اپنی کتاب عصر حاضر کی تفہیم (Understanding the Present) میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سائنس کی کوئی اخلاقیات یا ایمان نہیں ہے، اور وہ ہمیں ہماری حیات کے معنی، مقصد اور اہمیت کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی، لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سائنس کی فیضاتیکارکردگی ثابت کرتی ہے کہ وہ سب چیز یں مہیا کرسکتی ہے۔ لوگوں میں اس غلط خیال کو مستحکم کرنے میں سائنسی لٹریچر پیدا کرنے والوں کا بڑا ہاتھ ہے، جو عموماً ناقص بلند آہنگ اور اکثر غلط ملط مقبولِ عام لٹریچر لکھتے رہتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس کو واپس کھینچ کر ثقافت و تہذیب کے دائرے میں لایا