کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 82
ضمن میں پھیلی ہوئی غلط آرا، غلط خیالات و تصورات اور فضا کو پراگندہ کرنے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، خصوصاً اسلام کے حوالے سے یہ بات واضح کردی جائے کہ سائنسی ایجادات اور اسلامی تعلیمات میں کوئی تباین نہیں ، کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور اگر کسی مقام پر ایسا نظر بھی آتا ہے، تو وہ عارضی ہے، اور اسلامی تعلیمات کی کنہ اور حقیقت تک رسائی حاصل نہ ہوسکنے کا نتیجہ ہے یا سائنسی تجربے اور مشاہدے کا نقص ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ’’سائنس علت و معلول کی ہر کڑی میں غایت (Purpose)کو ضرور شا مل کرے، اگر اس نے سلسلہ واقعات کی ہر کڑی میں غایت کو تسلیم کرلیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے خدا کے وجود کو تسلیم کرلیا، اس کے ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرلیا۔ یومِ حساب کو تسلیم کرلیا، اور سائنس کی سرکشی نے خدا کے وجود کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔(۷) یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ شرط کوئی نئی نہیں ، نہ پہلی بار پیش کی گئی ہے، نہ سائنس اس سے نا آشنا ہے، بلکہ اس شرط کے ذریعے سائنس کو اس کا بھولا ہوا سبق پھر سے یاد کرایا جارہا ہے اور اسے اس بات کی دعوت دی جارہی ہے جس پر وہ اس سے پہلے خود قائم تھی۔ برٹرینڈرسل کہتا ہے ’’سائنس کے دائرۂ کار میں یہ با ت پہلے بھی شامل رہی ہے، لامذہبیت اختیار کرنے سے پہلے تک سائنس واقعات کے ہر سلسلے کو مذہب کی طرح علت، معلول اور غایت پر منحصر سمجھا کرتی تھی۔‘‘(۸) پھر اہم بات یہ ہے کہ غایت کو اگر سائنس میں شامل کرلیا جائے تو مطالعہ سائنس میں زیادہ معنویت پیدا ہوسکتی ہے، ایک فاضل محقق کے بقول : ’’غایت کو سائنس میں شامل کرلینے سے ہر مضمون میں علت اور معلول کی حکمتوں تک انسان کی رسائی ہوسکے گی، اس کے بعد سائنس کامطالعہ زیادہ بامعنی ہوجائے گا۔ اس کام میں مسلمان سائنس دانوں پر بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم اس اُصولِ مفاہمت کے مذہبی سطح پر پہلے ہی سے قائل ہیں ، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس اُصول کو سائنس کی آئیڈیالوجی بنائیں ، اور اس آئیڈیالوجی سے عالمی سائنس کو روشناس کرائیں ۔‘‘(۹) سائنس کی ایک اہم ضرورت : یہ گفتگو اس اعتبار سے تھی کہ سائنس مذہب کا انکار کرکے جن خطرات سے دوچار ہورہی ہے، ان سے بچنے کا محفوظ طریقہ مذہب کے زیرسایہ آجانے کے سوا کچھ نہیں ہے، یہی فطرت کا تقاضابھی ہے۔ لیکن ایک اور پہلو سے بھی سائنس کو مذہب کی چھتری درکار ہے، سائنس نے انکشافات و اکتشافات کے میدان میں تو یقینا بے حد ترقی کرلی