کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 81
قانونِ فطرت کی صورت میں صرف اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کائنات کیا ہے؟ مگر مذہب جس سوال کا جواب دے رہا ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ اس طرح طے شدہ پروگرام اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ وقت اور مدت پر پیش آرہا ہے، وہ کیوں ہورہا ہے؟ مذہب ان واقعات کے اصل اسباب و محرکات پر گفتگو کرتا ہے، لہٰذا سائنس کی دریافتوں کے باوجود مذہب کی ضرورت موجود و برقرار ہے، بلکہ اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب سائنسی توجیہات پر غوروفکر کرنے والا شخص ڈور کا اصل سرا نہیں پاتا، اور یوں اسے اپنی زندگی میں خلا محسوس ہونے لگتا ہے۔ایک امریکی ماہرحیاتیات سی سیل بوائس ہمن(Cecilboyce Hamann) اس بارے میں کہتا ہے: ’’غذا ہضم ہونے اور اس کے جزوِ بدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیا جاتا تھا، اب جدید مشاہدے میں وہ کیمیائی ردّعمل کا نتیجہ نظر آتا ہے، مگر کیا اس کی و جہ سے خدا کے وجود کی نفی ہوگئی؟ آخر وہ کون سی طاقت ہے، جس نے کیمیائی اجزا کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید ردّ عمل ظاہر کریں ، غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے، اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگیز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا، حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدے کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعے عمل کرتا ہے، جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے۔‘‘(۶) درحقیقت سائنسی تگ و دو نے ہمیں واقعے کی صحیح تصویر تو دکھا دی ہے ، مگر یہ واقعہ درست طور پر کیونکر پیش آتا ہے؟ اس تک سائنس رسائی حاصل نہیں کرسکتی، قوانین فطرت کیسے وجود پذیر ہوئے؟ ان کو درست نہج پر کس نے استوار کیا؟ اور پوری کائنات کا یہ ڈھانچہ، جس سے یہ کائنات متمتع ہورہی ہے، کس طرح اس قدر صحت و توازن کے ساتھ قائم ہے کہ اس کو دیکھ کر سائنسی قوانین اَخذ و ترتیب دیے جارہے ہیں ؟ ان سوالات کا جواب سائنس نہیں دے سکتی، اور اس لئے نہیں دے سکتی کہ یہ اس کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں آتے، اس کے لئے مذہب کی جانب رجوع کرنا ہوگا، اور یہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کی تشنگی بجھا سکتا ہے۔ سائنس اور مذہب ؛ مفاہمت کا طریقہ کار سائنس اور مذہب کے مابین مفاہمت کا درست اور قابل عمل طریقہ کار یہی ہے کہ اس