کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 80
ایک آدمی کے لئے عملاً خدا پرستی اختیار کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔ لوگوں کے دلوں میں یہ خوف چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا، وہ اہل علم جو ذ ہنی آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں ، ان کے لئے اس آزادی میں کمی یا محدودیت کا کوئی بھی تصور بڑا تشویشناک ہے۔‘‘(۵) کیونکہ اللہ کا پیغام کسی نہ کسی نبی ہی کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے ، اور اس نبی کا پیغام تسلیم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی بات کو خدا کی بات تسلیم کیا جائے، اس لئے جب وہ کوئی بات کہے تو تمام لوگوں کیلئے اس کو تسلیم کرنا ضر وری ہوگا، اور یہ بات ان لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی، جو عقل کو بلکہ صرف اپنی ہی عقل کو سب کچھ تصور کرکے اس کی پیروی کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ سائنس اور مذہب ؛ اختلافِ عمل جب تک اس امرکی وضاحت نہ ہوجائے کہ سائنس اور مذہب کے درمیان کس نوع کا اختلاف ہے؟ اس وقت تک ہمارا یہ دعویٰ صحیح صورت میں سامنے نہیں آسکتا کہ سائنس اور مذہب کے مابین دراصل میدانوں کا فر ق ہے۔ دونوں کے میدان الگ الگ ہیں ، اس لئے ان دونوں کی خدمات کو گڈمڈ نہیں کیاجاسکتا، اور جو خرابی بھی پیدا ہوئی ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ ہم نے دونوں کے دائرہ کار کو باہم گڈمڈ کر دیا ہے۔ اگر یہ بات واضح ہوجائے تو ظاہر ہوجائے گا کہ سائنس کو مانتے ہوئے، اس پر عمل کرتے ہوئے اور اس سے متمتع ہوتے ہوئے بھی مذہب کو خصوصاً مذہب ِاسلام کو تسلیم کیا جاسکتا ہے ، اور اس کے مطالبات پورے کئے جاسکتے ہیں ، دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے…!! اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا، جب اہل سائنس نے یہ جان لیا کہ دنیا کا نظام قانونِ فطرت پر چل رہا ہے، اور کائنات میں پیش آنے والے واقعات ایک متعین قانونِ فطرت کے مطابق رونما ہورہے ہیں ، اس لئے ان کی توجیہ کرنے کے لئے کسی نامعلوم اور غیر موجود خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ضرورت اس وقت تھی، جب تک ان واقعات کی توجیہ ہمارے سامنے نہیں آئی تھی۔ حالانکہ ذرا سا غور وفکر کرنے والے پر بھی اس استدلال کی غیر معروضیت اور سطحیت واضح ہوسکتی ہے۔ سوال تو یہ تھا کہ اس کائنات کے نظام کو برقرار اور مثبت طریقوں پر قائم رکھنے والی ایک اتھارٹی ناگزیر ہے، اور اس ذات کی ناگزیریت اب بھی علی حالہٖ قائم ہے، کیونکہ اب تک کی تگ و دو سے سائنس نے جو کچھ معلوم کیا ہے، وہ