کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 8
سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کافی حد تک گومگو کی حالت میں رہے ہیں ۔
٭ ۲/ مارچ کو انہوں نے بیان دیا کہ ’’وہ عراقی بحران پر پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے۔‘‘ (۳/مارچ ۲۰۰۳ء)
٭ ۵/مارچ کو روزنامہ جنگ کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہم ساری دنیا کے ٹھیکیدار نہیں ہیں ۔ عالمی بحرانوں سے پہلے ہمیں مل جل کر اندرونی بحران ختم کرنا ہوں گے۔‘‘(جنگ :۶/مارچ ۲۰۰۳ء)
٭ ۸/مارچ کو ان کی نسلی حمیت جاگی تو ارشاد ہوا کہ ’’ میں خود عراقی النسل ہوں ۔ مجھ سے زیادہ اُن کا خیال کون رکھے گا۔‘‘ ( نوائے وقت:۹/مارچ )
٭ ۹/مارچ کو اُنہوں نے ارشاد فرمایا: ’’ملین مارچ والے قوم کے خیر خواہ نہیں ۔‘‘ (نوائے وقت: ۱۰/مارچ)
٭ ۱۰/مارچ کو پہلی مرتبہ انہوں نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے بیان دیا:
’’ عراق پر امریکی جارحیت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہیں گے کہ عراق پر حملہ نہ کیا جائے۔ووٹنگ کا وقت آیا تو دیکھیں گے۔‘‘ (نوائے وقت،جنگ ۱۱ /مارچ)
٭ ۱۱/مارچ کو جمالی صاحب نے وزارتِ عظمی کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد پہلی مرتبہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’عراق سے جنگ کی حمایت کرنا بہت مشکل ہو گا،ہم عراق کی تباہی نہیں چاہتے،پاکستان عراق کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان ملک تباہ ہو جائے۔ عراق کے بارے میں وہاں کے حکمران خود فیصلہ کریں ۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ عراق پر جنگ کی حمایت بہت مشکل ہے۔ وقت آنے پر ہم وہی فیصلہ اپنائیں گے جو سب سے بہترہوگا۔اُنہوں نے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ عراق کو مزید وقت دیا جائے۔‘‘ (نوائے وقت: ۱۲/مارچ)
۱۶/مارچ کو جناب خورشید محمود قصوری ، وزیر خارجہ کا یہ بیان شائع ہوا:
’’ عراق پر حتمی فیصلہ کر لیا ہے ،جمالی اعلان کریں گے۔عراق پر قومی پالیسی تشکیل دیتے ہوئے رائے عامہ ، اپوزیشن پارٹیوں اور پنڈی کے ملین مارچ کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔‘‘ (نوائے وقت ۱۶/مارچ)