کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 79
اس کی بھرپور مخالفت کی گئی، مگر اب چرچ کی طاقت کمزور پڑ چکی تھی، اس لئے رفتہ رفتہ صلح کے امکانات پیدا ہونے لگے، اور بالآخر دونوں کے درمیان سمجھوتہ طے پاگیا، جو دراصل سیکولر ازم (Secularism)کی صورت میں تھا، اب مذہب اور سائنس کے درمیان حدود کار متعین کردی گئیں اور دونوں کے دائرے الگ الگ ہوگئے۔(۴) یوں کلیسا اور اہل سائنس کے مابین جاری جنگ کا تو خاتمہ ہوگیا، مگر درحقیقت مذہب اور سائنس دونوں نے وہ راستہ اختیار کیا، جو فطرت کے سراسر خلاف تھا، اس لئے رفتہ رفتہ حالات سدھرنے کی بجائے مائل بہ انحطاط ہوتے چلے گئے اور نوبت بہ ایں جارسید کہ مذہب اور خدا ہر اعتبار سے (بزعم خود و بزعم غلط) ان کی زندگیوں سے نکل گیا۔ لیکن یہ ایک غیر فطری رویہ تھا، نتیجۃً خدا پھر بھی موجود رہا، اور مذہب کی ضرورت پھر بھی باقی رہی۔ آخر کمرے میں اپنے آپ کو بند کرکے، اور روشنی کی گزرگاہوں کو ختم کرکے، دن کے وقت میں انسان اپنے آپ کو رات ہوجانے کا تو غلط اطمینان دلا سکتا ہے، مگر سورج کی موجودگی کو تو ختم نہیں کرسکتا۔ یہ تھا سائنس اور مذہب کے اختلافات کا اصل پس منظر، اور جب ہم سائنس، مذہب تعلقات کی بات کرتے ہیں ، تو اس پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ انکارِ مذہب کا سبب اب تک کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ خدا کے وجود کا انکار قطعاً سائنس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ مذہب اور مذہبی تعلیمات سے روگردانی اور ان سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، لیکن آج کے دور میں انکارِ مذہب کا ایک اہم سبب اور بھی ہے، اور اسے بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ سبب مغرب کے ہاں پھیلتا اور بڑھتا ہوا تصورِ آزادی ہے، جس کو ہم ’مادر پدر آزادی‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ یہ آزادی رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے اب اس مقام انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ان کو ہر اس معقول چیز سے بھی خوف آنے لگا ہے، جو ان کی اس خود ساختہ آزادی کو ذرابھی قدغن لگاتی ہو۔ خدا اور مذہب کے انکار کے پیچھے بھی یہی تصور کارفرما ہے، یہی وہ بنیادی خوف ہے، جو انہیں انکارِ مذہب کے لایعنی فعل پر اُکسا رہا ہے۔ ایک امریکی ماہر طبیعات جارج ہاربرٹ(George Herbert Blovnt) ان چند لوگوں میں سے ہیں ، جنہیں اس امر کا اعتراف ہے، وہ کہتے ہیں : ’’مذہب (خدا پرستی) کو ماننے کی معقولیت، اور خدا سے انکار کی غیر معقولیت بذاتِ خود