کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 77
اہل سائنس میں حقیقتاً کسی ٹکراؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے؟ سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کی اہمیت/ پس منظر سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ اس سوال کے دونوں ہی جز انسانی زندگی اور خصوصاً عصر حاضر میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں ، ایسی اہمیت جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس بیان میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دونوں ہی چیزیں ، مذہب اور سائنس آج کے ہر انسان کے لئے ناگزیر ہیں ، ا ور اگر کوئی اس حقیقت سے واقف نہیں یا کسی سبب سے اس بدیہی حقیقت کو قبول کرنے سے صرفِ نظر کرتا ہے، تو وہ خود اپنی زندگی کو نامکمل بنانے اور ناقص رکھنے کی سعی ِنا مشکور کرتا ہے، خواہ اسے خود اس کا علم تک نہ ہو! سائنس اور مذہب کا یہ ٹکراؤ اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کی پیداوار ہے، اور یہی وہ دور ہے جب جدید سائنس کا ظہور ہوا، اور دنیا نے اسے کسی علم بلکہ مکتب ِفکر کے طور پر پہچانا۔ سائنسی دریافتوں میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لئے بڑی کشش تھی، پھر اس کا دارومدار مکمل طور پر مشاہدے اور تجربے پر تھا۔ یہ چیزیں انسانی شعور اور عقل کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں اور انسان ظاہر میں نظر آنے والی چیزوں کا اثر زیادہ تیزی سے اور شدت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ہے، عربی محاورے کل جدید لذیذ کے مطابق ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے۔ سائنس مذہب کے مقابلے میں ایک نئی چیز تھی، ان اسباب و عوامل کی بنا پر لوگوں کا اس کے اثرات تیزی سے قبول کرنا ایک فطری عمل تھا، مگر خرابی یہاں سے شروع ہوئی کہ سائنسی دریافتوں سے جوماحول بنا، اس میں لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب خدا کی کوئی ضرورت نہیں رہی، اور مذہب ایک فرسودہ روایت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ ان کے نزدیک خدا کو ماننا اس لئے ضروری تھا کہ اس کو مانے بغیر کائنات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی، اب جدید سائنس نے یہ عقدہ حل کردیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ یہ کائنات اور اس میں واقع ہونے والا ہر امر ایک سبب کی وجہ سے ہے، اور وہ سبب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب کچھ قانون فطری ہے، Law of Nature کے لگے بندھے اُصولوں کے تحت وقوع پذیر ہورہا ہے۔ دوسری جانب یوں ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں ، جو وحی الٰہی پر مبنی تھیں ، وقت کے ساتھ ساتھ تغیر اور تحریف نے جگہ پکڑ لی اوریونانی فلسفے نے اس پر غلبہ حاصل کرلیا، اور