کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 76
اسلام اور سائنس سید عزیز الرحمن٭ مذہب اور سائنس کا باہمی تعلق، اسلام کا نقطۂ نظر انسانی زندگی کے کچھ خواص ہیں ، اور ان خواص کے اعتبار سے کچھ لوازم بھی۔ انسانی زندگی کا مادّی وجود جہاں اس سے بہت سی چیزوں کا تقاضا کرتا ہے، اسی طرح اس کا ایک روحانی وجود بھی ہے، جو اس سے ’مذہب‘ مانگتا ہے۔ انسان مادّی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوجائے، اس کا روحانی وجود اسے سکونِ قلب کی طلب پیدا کرکے، اسے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ مادّیت کی دوڑ میں انسان جس قدر آج بڑھتا جاتاہے، اتنی ہی اس کی روحانی تشنگی بڑھتی چلی جاتی ہے، یہ پیاس ہی مذہب کے وجود کی سب سے بڑی، سب سے وقیع، سب سے وزنی اور عالمگیر دلیل ہے! سائنس دورِ جدید کے انسان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے چکی ہے۔ یہ بات بھی درست ہوگی کہ سائنس سے سائنسی ایجادات مراد لی جائیں ، لیکن سائنس بذاتِ خودایک طرزِ فکر کا نام ہے، جو گذشتہ زمانے میں بدقسمتی سے، چند خارجی و داخلی وجود کے سبب، اور ابتدائی سطح پر ملنے والی کامیابیوں سے حاصل ہونے والی سرخوشی کے زعم میں مذہب اور خدا کے وجود سے ٹکرا گئی تھی، لیکن اب ہر سطح پر اس کااحساس پیدا ہوچلا ہے کہ سائنس کا میدان اور ہے اور مذہب کے فرائض اور۔ سائنس کامذہبی اُمور میں کوئی دخل نہیں ہے، البتہ مذہب کا سائنسی معاملات میں دخل ضرور ہے، جو کہ برس ہا برس کے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دخل تعمیری اور مثبت نوعیت کا ہے، منفی اور تخریبی نہیں ۔ لہٰذا دونوں میں ٹکراؤ اور تضاد کی کیفیت کا پیدا ہونا ممکن نہیں ۔ ایسا اس وقت ہوتا جب دونوں کے مفادات مشترک ہوتے، اور جب دونوں کا میدانِ عمل ایک ہوتا۔ منطق کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کے مابین ’عموم وخصوص مطلق‘ کی نسبت ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی حوالے سے اسلا م کی تعلیمات کے تناظر میں گفتگو کی گئی ہے، اور مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ کیا مذہب سائنس کا مخالف ہے؟ یا اہل مذہب اور ٭ نائب مدیر ششماہی ’ السیرۃ عالمی ‘ کراچی