کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 72
دلیل نمبر۸ 1. حدثنا وکيع عن ربيع عن أبی معشر عن إبراهيم قال يضع يمينه علی شماله في الصلاۃ تحت السرۃ (ابن ابی شیبہ) یعنی ’’وہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے۔‘‘ درج بالا عمل محترم ابراہیم نخعی کا ہے، ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے، نیز یہ ہاتھ چھوڑ کر بھی نماز پڑھتے تھے۔ ان سے اس سلسلہ میں دو مزید روایات بھی ہیں : 2. حدثنا أبوبکر قال حدثناهثيم عن يونس عن الحسن ومغيرۃ عن إبراهيم أنهما کانا يرسلان أيديهما فی الصلاۃ یعنی ’’وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱/ ص۴۲۸) 3. حدثنا جدير عن مغيرہ عن أبی معشر عن إبراهيم قال لا بأس بأن يضع اليمنی علی اليسریٰ في الصلاۃ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱ ص۴۲۷) یعنی ’’وہ نماز میں ہاتھ باندھنے میں کوئی قباحت نہ سمجھتے تھے۔‘‘ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ان تینوں آثار پر اگر نظر انصاف سے غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بیشتر نمازیں ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے تھے اور نماز میں ہاتھ باندھ لینے کو بھی مباح سمجھتے تھے۔ ان تینوں آثار کی موجودگی میں ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے فقط ایک عمل کو بطورِ حجت پیش کرنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ ’تابعی‘ کے اقوال و اعمال کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے يقول: اٰخذ بکتاب الله فإن لم أجد فبسنة رسول الله فان لم أجد فبقول الصحابة، أخذ بقول من شئت منهم ولا أخرج عن قولهم إلی قول غيرھم فأما إذا انتهي الأمر إلی إبراهيم والشعبی وابن سيرين وعطاء فقوم اجتهدوا فأجتهد کما اجتهدوا (التہذیب التہذیب: ۱۰/۴۰۳) ’’محترم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب سے دلیل حاصل کروں گا ، پس اگر مجھے وہاں سے دلیل نہ ملے تو میں سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ حجت اختیارکروں گا اور اگر وہ بھی میسر نہ آئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی صحابی کے قول کو اختیار کروں گا اور جب معاملہ ابراہیم نخعی، شعبی، ابن سیرین اورعطاء تک پہنچے گا تو وہ سب ایک قوم ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا سو میں بھی اجتہاد کروں گا جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔‘‘ امام صاحب کے اس قول سے واضح ہوا کہ تابعی کے قول کو بطورِ حجت پیش نہیں کیاجاسکتا۔