کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 71
درج بالا روایات سے یہ واضح ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ’تحت السرۃ‘ کی ایک روایت مروی ہے جبکہ ’علیٰ صدرہٖ‘ کی دو روایات ہیں ۔ دو روایات کو ایک روایت کے بالمقابل ترجیح دینا چاہئے۔ یوں بھی پہلی ایک، اور دوسری دو روایات ضعیف ہیں ۔ دلیل نمبر۷ حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا حجاج بن حسان قال سمعت أبا مجلذ أوسألته قال قلت کيف يضع قال يضع باطن کف يمينه علی ظاهر کف شماله ويجعلھما أسفل السرۃ (مصنف ابن ابی شیبہ) ’’ابومجلز (تابعی) حالت ِنماز میں دائیں ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر ناف کے نیچے اُنہیں باندھتے۔‘‘ ابومجلز کے اس اثر کو امام ابوداود (نسخہ ابن العربی) نے تعلیقاً نقل کیا جبکہ امام ابوبکر نے اس اثر کو موصولاً نقل کیا ہے جیسا کہ درج بالا سند سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر کا اثر ’فوق السرۃ‘ نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے: کذلک قاله أبومجلز لاحق بن حميد (بیہقی: ج۲/ص۳۱۸) حنفی حضرات شیخ قاسم بن قطلوبغا کے بیان کو بنیاد بنا کر جس طرح مصنف ابن ابی شیبہ کے متعدد نسخے ثابت کرنے پر مصر ہیں ، اِسی طرح ہم بھی اگر چاہیں تو امام بیہقی کے اس قول کو بنیاد بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابومجلز سے اس سلسلے میں دو روایات ہیں ، ایک تحت السرۃ کی اور دوسری فوق السرۃ کی مگر یہ حرکت کرکے احناف کی طرح حقیقت کے چہرے کو مسخ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہمارادین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے ہم یہی عرض کریں گے کہ اس سلسلہ میں یا تو امام بیہقی سے تسامح ہوا ہے یا پھر کسی نسخہ لکھنے والے سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن ابومجلز کے اثر کے جواب میں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ دلیل بھی اَحناف کیلئے بے سود ہے کیونکہ ابومجلز تابعی ہیں ۔ تابعی کے عمل کو اگر دین میں حجت تسلیم کرلیا جائے ( جبکہ وہ صحیح احادیث کے برخلاف ہو) تو امت مسئلہ مزید افتراق وانتشار میں مبتلا ہوجائے گی کیونکہ متعدد تابعین ایسے ہیں جن کے اقوال واعمال ایک دوسرے کی نقیض ہیں ۔