کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 7
دے گی۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ سلامتی کونسل میں حکومت ِپاکستان جنگ کی مخالفت میں ووٹ دے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام عراق کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کوعراق پالیسی تبدیل کرنے ہوگی۔ عوام حکومت کو امریکہ کے کیمپ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔یہ ایک صلیبی جنگ ہے جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے مقابلہ کرنا ہے۔پہلے اللہ ، اسلام اور اُمت ِمسلمہ ہے۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگانے والے اپنے اقتدار کوبچانے کی بات کرتے ہیں ۔(نوائے وقت: ۱۰/مارچ) ملین مارچ میں بعض سیکولر رہنماؤں اصغر خان، عمران خان، رحمت خان وردگ اور مسلم لیگ ’ ن‘ گروپ کے جاوید ہاشمی نے بھی خطاب کیا۔
پاکستان کا سرکاری موقف
ان مظاہروں سے پہلے حکومت پاکستان کوئی واضح سرکاری موقف پیش کرنے سے گریز کر تی رہی۔کھل کر جنگ کی حمایت بھی نہ کی گئی اور امریکہ کو ناراض نہ کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ۲۴/فروری کو غیر وابستہ تحریک جس کے ارکان کی تعداد ۱۱۶ ہے، نے عراق کے خلاف امریکی جارحیت مسترد کرنے کی قرار داد منظور کی تو پاکستان نے نہ صرف اس کی حمایت کی بلکہ صدر مشرف نے وہاں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ پاکستان کسی بھی صورت میں جنگ کا حامی نہیں ہے۔ یکم مارچ کو امریکہ کی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا پاکستان کے دورے پر اس لیے آئی تھیں تاکہ اس امریکی قرارداد پر پاکستان کی حمایت حاصل کر سکیں جو ۲۵/ فروری کوسلامتی کونسل میں پیش ہوئی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ کو پاکستان کے اس موقف سے آگاہ کیا گیا کہ عراق کو اگر وقت درکار ہو تو ضرور ملنا چاہیے۔عراق پر حملے کے مضمرات بیان کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا کہ اس کے خلاف عالم اسلام میں شدید ردّ عمل ہو گا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے ایک بیان میں کہا کہ ’’پاکستان کا موقف ہے کہ جنگ سے بچتے ہوئے قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ ہم ڈیڈ لائن کے خلاف ہیں ۔‘‘ (۹/مارچ ۲۰۰۳ء)
عراق جیسے اہم مسئلے پر تادمِ تحریر (۱۶/ مارچ) پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث نہیں کی گئی۔ البتہ وزیر اعظم پاکستان جناب ظفر اللہ جمالی نے گزشتہ چند روزمیں جو بیانات دیے ہیں ، اس