کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 68
’’یہ ان حضرات کا تہور ومبالغہ اور انتہائی جسارت ہے، اس واسطے کہ عبد الرحمن بن اسحق ضعیف ہے۔ یہ تو صحیح ہے لیکن اتنا ضعیف نہیں کہ اس کی ہر روایت کو ’بالاتفاق‘ ضعیف کہہ دیا جائے کیونکہ حافظ ابن حجر نے ’القول المسدد‘ میں کہا کہ امام ترمذی نے ان کی ایک حدیث کی تحسین کی ہے۔اسی طرح حاکم نے ان کے طریق پر ایک حدیث کی تصحیح کی ہے۔نیز ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ان کی حدیث روایت کرکے صرف یہ کہہ کر ’’وفی القلب عن عبدالرحمن شيئ‘‘ تردّد ظاہر کیا ہے۔ (غایۃ السعایۃ : ج۳/ص۳۱) ان شیوخ کے اندازِ تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے ’القول المسدد‘ کی طرف مراجعت کئے بغیر عبدالرحمن بن اسحاق کی وکالت کا فریضہ ادا کیا ہے۔ راقم یہ بات پہلے تحریر کر آیا کہ حافظ ابن حجر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے رائے سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں جیساکہ انہوں نے تہذیب التہذیب میں ذکر کیا ہے۔ البتہ امام ابن جوزی کی تحقیق سے انہیں اختلاف ہے یعنی امام ابن جوزی عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کو مو ضوع قرار دیتے ہیں اور ابن حجر اس روایت کے موضوع ہونے کا ردّ کرتے ہیں جیسا کہ وہ ’القول المسدد‘ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں : ’’أما بعد: فقد رأيت أن أذکر في ھذہالأوراق ما حضرني من الکلام علی أحاديث التی زعم بعض أھل الحديث أنها موضوعةوهي فی المسند الشهير للامام الکبير أبی عبدالله أحمد بن حنبل إمام أھل الحديث فی القديم والحديث (القول المسدد: ص۵۱) ’’میں نے پختہ ارادہ کیا کہ میں ان اوراق میں وہ معلومات ذکر کروں جو بعض اہلحدیث نے ان احادیث پر کی ہے جو ان کے خیال میں موضوع ہیں اور مسند احمد بن حنبل میں موجود ہیں ۔‘‘ جہاں تک امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تصحیح کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تمام اہل علم پرعیاں ہیں کہ ان حضرات کا دیگر ائمہ کے خلاف کسی روایت کو حسن یا صحیح قرار دینا قابل حجت نہیں ۔حافظ ابن خزیمہ عبدالرحمن بن اسحق سے مروی حدیث اپنی صحیح میں لائے ہیں لیکن انہوں نے اس پر نہ صرف صحیح کا حکم نہیں لگایا بلکہ اس پر جرح نقل فرمائی جیسا کہ وہ اس حدیث کو نقل کرنے سے پہلے رقم طراز ہیں : باب ذکر ما عدا الله جل وعلا في الجنة من الغرف لمداوم صيام التطوع إن صح الخبر فإن فی القلب من عبد الرحمن بن إسحق أبی