کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 67
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں مروی روایت کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ اس روایت کو امام دارقطنی اور امام بیہقی نے عبدالرحمن بن اسحق سے نقل کیا ہے جبکہ وہ تمام ماہرین فن کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔‘‘ واضح رہے کہ عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ البتہ اس سے مروی روایات کے موضوع ہونے پر اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عبدالرحمن بن اسحق متہم بالکذب ہے، اس لئے امام ابن جوزی نے اس سے مروی روایات کو’موضوعات‘ میں شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مروی روایات پر ’موضوع‘ کا حکم لگانے کی مخالفت کی ہے اور ان کے ’ضعیف‘ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر نعمان بن سعد کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں : وذکرہ ابن حبان فی الثقات قلت: والراوي عنه ضعيف کما تقدم فلا يحتج بخبرہ (تہذیب التہذیب: ج۱۰/ص۴۰۵) ’’نعمان بن سعد کو امام ابن حبان نے ’کتاب الثقات‘ میں ذکر کیا ہے، البتہ ان سے (جو فقط ایک ہی راوی یعنی ان کا بھانجا) عبدالرحمن بن اسحق روایت کرتا ہے، وہ ضعیف ہے اس لئے اس سے مروی روایت کو بطورِ حجت نہیں لیا جائے گا۔‘‘ جیسا کہ درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ حافظ ابن حجر نے عبدالرحمن بن اسحق سے مروی روایات کو موضوع تسلیم نہیں کیا۔ ان کے اس عمل سے ہمارے بعض علمی حلقے غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں ۔ امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن اسحق کے بارے میں امام نووی کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ’نصب الرایہ‘ میں درج کیا ہے، لیکن نصب الرایہ کے محشی شیخ یوسف بنوری نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ پر برہمی کا اظہار اس طرح فرمایا ہے : ھذا تهور منه کما ھو دأبه فی أمثال ھذہ المواقع وإلا فقد قال الحافظ بن حجر فی ’’القول المسدد‘‘ وحسن له الترمذی حديثا مع قوله إنه تکلم فيه من قبل حفظه وصحح الحاکم من طريقه حديثا وأخرج له ابن خزيمة من صحيحه آخر ولکن قال وفی القلب من عبد الرحمن شيیٔ (حاشیہ نصب الرایہ : ج۱/ص ۳۱۴) فاضل دیوبند جناب محمدحنیف گنگوہی نے اسی عبارت کا ترجمہ اُردو زبان میں غایۃ السعایۃ میں نقل کیا ہے :