کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 66
فيمن ترکوا حديثه ’’ جس راوی کی روایت کو محدثین نے مسترد کیا ہے ،اس کے بارے میں امام بخاری درج بالا الفاظ (یعنی ’فیہ نظر‘ اور ’سکتواعنہ‘) استعمال کرتے ہیں ۔‘‘ عبدالرحمن بن اسحق،امام یحییٰ بن معین اور امام ابن خزیمہ کی نظر میں : عن ابن معين ليس بذاک القوی (تہذیب التہذیب: ج۴ ص۱۲۴) قال ابن خزيمة لا يحتج بحديثه (ایضاً) مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق کو تمام ماہرین نے ناقابل اعتبار و استشہاد قرار دیا ہے۔ زیاد بن زید کا تعارف :اس روایت کی سند میں دوسری خرابی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق کا شیخ بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ امام ابوحاتم نے اسے مجہول قرار دیا ہے (الجرح والتعدیل: ۳ /۵۳۲) سوال:شیخ محمد حنیف گنگوہی (فاضل دارالعلوم دیوبند) نے لکھا ہے کہ زیاد بن زید کا مجہول ہونا مضر نہیں ، اس لئے کہ دارقطنی نے عبدالرحمن بن إسحق عن النعمان بن علي عن علی بھی روایت کیا ہے۔ (غایۃ السعایہ: ج۳/ ص۳۹) جواب:معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے دارقطنی کی طرف مراجعت کئے بغیر اس بات کو دارقطنی کی طرف منسوب کردیا ہے، دارقطنی میں یہ روایت عبدالرحمن بن اسحقعن نعمان بن علی سے نہیں بلکہ نعمان بن سعد سے ہے جیسا کہ دارقطنی میں ہے : حدثنا محمد بن القاسم ثنا أبوکريب ثنا حفص بن غياث عن عبدالرحمن بن إسحاق عن النعمان بن سعد عن علی (انتھٰی) (۱/۲۸۶) دارقطنی کے اس طریق سے زیاد بن زید کی جہالت کا ضرر تو زائل ہوگیا ہے مگر ایک نئی خرابی پیدا ہوگئی کہ عبدالرحمن بن اسحق جو روایات اپنے ماموں نعمان بن سعد سے نقل کرتا ہے، وہ روایات امام احمد کے نزدیک مناکیر ہیں : قال عبدالرحمن بن أحمد عن أبيه ليس بذاک وھو الذي يحدث عن النعمان بن سعد أحاديث مناکير (تہذیب التہذیب: ج۶/ ص۱۲۴) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں رقم طراز ہیں : أما حديث علی رضی الله عنه أنه قال من السنة في الصلاۃ وضع الأکف علی الأکف تحت السرۃ ضعيف متفق علی تضعيفه رواہ الدارقطنی والبيهقي من رواية أبی شيبة عبد الرحمن بن اسحق الواسطی وھو ضعيف بالاتفاق (شرح النووی: ج۴/ص۱۵۳)