کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 6
اَقوام کا نشانہ مسلمان ہیں ، نہ کہ وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار۔ ایسا ہوتا تو امریکہ عراق کی بجائے شمالی کوریا پر توجہ دیتا۔فوجی طاقتیں ’دہشت گردی‘ کو دنیا فتح کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ ان کے رہنما پتھر کے دور کے حکمران بن گئے ہیں جن کے خیال میں ’قتل عام‘ ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔‘‘
(روزنامہ ’جنگ‘ لاہور: ۲۴/فروری ۲۰۰۳ء)
جناب مہاتیر محمد نے اُمت ِمسلمہ کی نمائندگی جس بھر پور اور مؤثر انداز میں کی ہے، آنے والا مؤرخ عالم اسلام کے اس بطل ِجلیل کی جرا ت اور دور اندیشی کو سلام پیش کرے گا۔
مسئلہ عراق اور پاکستانی عوام
۱۵/ فروری کو جب برطانیہ ،سپین، اٹلی،جرمنی، امریکہ اور دیگر ممالک کے کڑوڑوں عوام نے عراق کے خلاف ممکنہ امریکی جارحیت کے خلاف عالمی ضمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے تاریخ ساز مظاہرے کیے تو پاکستان کے چند شہروں میں چھوٹی سطح پر مظاہرے دیکھنے میں آئے۔اس کا مطلب ان کی بے حسی نہیں جس طرح کہ بعض پاکستانی کالم نگاروں نے عام طور پرسمجھا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان کسی بھی برادر مسلمان ملک پر جارحیت کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں ، مگر افغانستان پر امریکہ کی وحشیانہ بمباری اور بعد میں سقوطِ کابل کی وجہ سے پاکستانی عوام میں دل شکستگی کے جذبات کاپیدا ہونا فطری امر تھا۔طالبان کے حق میں مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد کو تشدد اور مصائب سے بھی گزرنا پڑا۔
مزید برآں اکتوبر کے انتخابات کے فوراً بعد متحدہ مجلس عمل کی قیادت مختلف آئینی اور سیاسی اُمور میں اس قدر اُلجھی رہی کہ فوری طور پر عراق کے مسئلے کے متعلق عوام الناس کو سڑکوں پر لانا دشوار تھا۔ بالآخر متحدہ مجلس عمل کی کال پر ۲/ مارچ کو کراچی اور ۹/مارچ کوراولپنڈی میں ’ملین مارچ‘کی صورت میں عوامی احتجاج کا سیلاب اُمڈ آیا۔مجلس کی قیادت کے دعویٰ کے مطابق بالترتیب ۳۳/لاکھ اور ۵۰/لاکھ شرکاء نے حصہ لیا۔لاکھوں شرکاء نے مجلس عمل کے قائدین کی اپیل پر ہاتھ اُٹھا کر حکومت کی امریکہ حمایت پالیسی کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ راولپنڈی کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس عمل کے قائدین نے کہا کہ امریکہ جار ح ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔جارج بش عظیم تر اسرائیل کی تعمیر اور مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اپنی غیرت کا سودا کرنے کی اجازت نہیں