کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 51
کی مراد یہ تھی کہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھوں گا تاکہ یہود و نصاریٰ کی بھی مخالفت ہوسکے۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود‘‘ (السنن الکبری للبیہقی : ص۲۷۸/ ج۴) ’’نو اور دس (دونوں کا) روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ ‘‘ شیخ احمد عبدالرحمن البناء رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقوف روایت کی سند کو صحیح قرار دیاہے۔ (الفتح الربانی :۱/۱۸۹، مصنف عبدالرزاق؛۷۸۳۹، طحاوی:۲/۷۸) اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث بھی ذکرکی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لئن بقيت لآمرن بصيام يوم قبله أو يوم بعد يوم عاشوراء‘‘ ’’ اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو میں یہ حکم ضرور دوں گا کہ دسویں محرم سے پہلے یا اس کے بعد (یعنی گیارہویں محرم) کا ایک روزہ (مزید) رکھو۔‘‘ یہ روایت مسندحمیدی (۴۸۵) اور سنن کبریٰ از بیہقی (۴/۲۸۷) میں موجود ہے مگر اس کی سند میں ابن ابی لیلی (جن کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے) ضعیف راوی ہے۔ جبکہ امام ابن عدی نے یہ روایت ’الکامل‘ (۳/۹۵۶) میں درج کی ہے اور اس کی سند میں داود بن علی نامی راوی کو ضعیف قرار دیاہے۔ ایک تیسری صورت بعض اہل علم مندرجہ بالا اختلاف سے بچتے ہوئے ایک تیسری صورت یہ پیش کرتے ہیں کہ نو، دس اور گیارہ تینوں تاریخوں کے پے در پے روزے رکھ لئے جائیں ۔ بطورِ دلیل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوما‘‘ ’’یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ (اس مخالفت کا طریقہ یہ ہے کہ) یوم عاشورا (دس محرم) کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔‘‘ یہ روایت مسنداحمد (۱/۲۴۱)، ابن خزیمہ (۲۰۹۵) ، الکامل (۳/۹۵۶)، السنن الکبریٰ للبیہقی (۴/۲۸۷) وغیرہ میں موجود ہے مگر اس کی سند میں بھی ابن ابی لیلیٰ اور داود بن علی نامی دو راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ قابل حجت نہیں ۔