کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 50
اور دس دونوں کا روزہ رکھنا چاہئے۔ کیونکہ اصل فضیلت والا دن تو دسویں محرم کا ہے۔ جبکہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ بھی شامل ہوجائے گا اور اس طرح دونوں صورتوں یعنی فضیلت ِعاشوراء اور مخالفت ِیہود و نصاریٰ پر عمل ہوجائے گا۔ لہٰذا نو اور دس دونوں تاریخوں کے روزے از بس فضیلت کے لئے ضروری ہیں ۔ ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وسعت پائی جاتی ہے، اس لئے مندرجہ دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صو رت کے ساتھ ہی اسے خاص کردینا اور اس کے برعکس دوسری کو غلط قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں کے الگ الگ مضبوط دلائل موجود ہیں ، مثلاً: ٭ صرف نو کا روزہ رکھنے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو کا روزہ رکھوں گا۔ اب حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ نو ہی کا روزہ رکھا جائے باقی رہی یہ بات کہ اصل فضیلت تو دسویں محرم کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فضیلت کا معیار شریعت ہے۔ اگر شریعت دس کی بجائے نو کو باعث ِفضیلت قرار دے دے تو پھر نو ہی کی فضیلت سمجھی جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ جب حکم بن اَعرج نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یومِ عاشورا کے روزے کا سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’جب محرم کا چاند دیکھ لو تو دن گننا شروع کردو اور نویں تاریخ کو روزہ کے ساتھ صبح کرو۔‘‘ سائل نے پوچھا:’’ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن روزہ رکھتے تھے؟‘‘ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں !‘‘ (مسلم: کتاب الصیام، باب اَی یوم الصیام فی عاشوراء؛۱۱۳۳) اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دسویں محرم کو روزہ رکھتے رہے مگر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نویں محرم کے روزے کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس لئے کردی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما چکے تھے کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا۔ گویا اب نویں کو ہی کو سنت سمجھا جائے گا، اگرچہ عملی طور پر حضور کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو کا روزہ رکھتے۔ ٭ دس کا روزہ رکھنے والوں کی پہلی دلیل تو یہی ہے کہ اصل فضیلت والا دن دس محرم ہے اور اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روزہ رکھتے رہے۔تاہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ آئندہ سال میں نو کا روزہ رکھوں گا، اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ میں دس کا روزہ چھوڑ دوں گا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم