کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 5
اُمنگوں کی لاج رکھ لی۔
اسلامی سربراہی اجلاس کے مذکورہ اعلامیہ کے باوجود قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں دو لاکھ سے زیادہ امریکی افواج متعین ہیں ۔ ان ممالک کی سرزمین کو استعمال کیے بغیر امریکہ عراق پر حملہ نہیں کر سکتا۔ مصر، اُردن جیسے مسلم ممالک نے اگرچہ اس بحران کے پر امن حل پر زور دیا ہے مگر ان کا لب ولہجہ چغلی کھا رہا ہے کہ وہ بالآخر امریکی دباؤ کے آگے جبین ِنیاز جھکا دیں گے۔
سعودی عرب کے متعلق بھی متضاد خبریں شائع ہوئی ہیں ۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا تازہ ترین بیان ۱۵/مارچ کو شائع ہوا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کو عراق کے خلاف فوجی اڈّے نہیں دے گا۔سعودی عرب کے ۳۲ جید علما نے فتویٰ دیا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا بد ترین گناہ ہو گا ، کوئی فردِ واحد اس جنگ میں ساتھ دے یا کوئی حکومت اس کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کرے وہ بد ترین گناہ کی مرتکب ہو گی ۔فتویٰ میں تمام حکومتوں خاص طور پر خطے کے ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکی مکروہ عزائم کو مسترد کر دیں ۔ (نوائے وقت ۱۶/مارچ)
سعودی عرب میں علما کی آرا کو جس طرح عوامی اور حکومتی سطح پر اہمیت دی جاتی ہے، اس کے پیش نظر سعودی حکومت کے لیے امریکی حمایت کا فیصلہ سخت آزمائش سے کم نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ جدید خیالات کے مالک مصر کی جامعہ الازہر اس سے پہلے اسی طرح کا فتویٰ جاری کر چکی ہے۔ مصری عوام بھی بھر پور احتجاج کر رہے ہیں مگر وہاں کی امریکہ نواز حکومت نے ابھی تک کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی۔
اس گئے گزرے دور میں جب اُمت ِمسلمہ ایک متحدہ قیادت سے محروم ہے، اُمت کے جذبات کی صحیح ترجمانی کا فریضہ ایک ایسے مسلمان حکمران نے انجام دیا ہے جس کو اپنے ملک میں اسلام پسندوں کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ ہماری مراد ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ہے۔ ۲۳/فروری کو کوالالمپور میں ’غیر وابستہ تحریک‘ کے چیئرمین کے طور پر افتتاحی خطاب کرتے ہوئے جناب مہاتیر محمد نے نہایت ولولہ انگیز انداز میں فرمایا:
’’عراق پر امریکی حملے کو عالم اسلام اور اسلام کے خلاف جنگ تصور کیاجائے گا۔مغربی