کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 49
رکھتے اور ا س دن عید مناتے اور اپنی عورتوں کو اچھے اچھے لباس اور زیورات پہناتے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو۔‘‘ (مسلم؛۲۶۶۱) 8. حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنواسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں جاکر یہ اعلان کرے کہ ’’جس نے کچھ پی لیا ہے، وہ اب باقی دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے کچھ نہیں کھایا، وہ روزہ رکھے کیونکہ آج عاشوراء کا دن ہے۔‘‘ (بخاری؛۲۰۰۷/ مسلم؛۱۱۳۵) 9. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں ۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع‘‘ آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے۔‘‘ (مسلم؛۱۱۳۴) 10. مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ ’’لئن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع‘‘ ’’اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ (مسلم: ایضاً) روزہ نو محرم کو یا دس کو؟ عاشورا کے روزے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے اختلاف چلا آتا ہے کہ یہ روزہ نو تاریخ کو رکھا جائے یا دس کو ؛ یا نو اور دس دونوں کے روزے رکھے جائیں ؟ وجہ ِاختلاف صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث (نمبر۹) ہے جس میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آئندہ سال میں زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی طور پر نو کا روزہ رکھنے کا موقع نصیب نہ ہوسکا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دسویں محرم کے روزے کے لئے بطورِ ناسخ ہے اور اب صرف اور صرف نو ہی کا روزہ رکھنا چاہئے۔ جبکہ بعض اہل علم اس کے برعکس اس موقف کے حامل ہیں کہ نو