کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 45
کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی۔ ٭ ماہ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حضرت حسین کے واقعہ شہادت پر نالہ و شیون اور نوحہ و ماتم کیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کو از خود سخت تکلیفیں دی جاتی ہیں ۔ تیز دھاری آلات سے جسم کو زخمی کیا جاتا ہے۔ شہادتِ حسین کے رنج و غم میں آہ و بکا کا ایسا عجیب وحشیانہ اور خوفناک منظر برپا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ! اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ کسی کی وفات یا شہادت پر رنج و غم اور افسوس کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ اظہار شرعی حدو د میں رہتے ہوئے ہونا چاہئے جبکہ نوحہ و ماتم کرنے والے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوٰی الجاهلية ’’ وہ شخص ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کئے اور دورِ جاہلیت کے بین کئے۔‘‘ (بخاری: کتاب الجنائز، باب لیس منامن ضرب الخدود؛۱۲۹۷) ٭ ماہِ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ آپس میں نہ صرف یہ کہ دست و گریبان ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہیں ۔ تقریباً ہر سال ماہ محرم میں کسی نہ کسی ’مسجد‘ یا ’امام بارگاہ‘ میں معصوم لوگ دہشت گردی کی کارروائی کا شکار ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ اسلام تو عام دنوں میں بھی خونریزی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی شکل کو پسند نہیں کرتا پھر بھلا ماہِ محرم میں اسے کیسے پسند کرسکتا ہے؟ اس لئے اسلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسی کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی سے کلی اجتناب کیا جائے۔ ویسے بھی یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر کوئی شخص فی الواقع کفروشرک اور ارتداد کا مرتکب ہو رہا ہو اور واقعی وہ قتل کی سزا کا مستحق ہوچکا ہو تو تب بھی ایسے شخص یا گروہ کو سزاے قتل دینے کی مجاز صرف حکومت ِوقت ہے۔ ہر کہ ومہ کو اسلام یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرنا شروع کردے! یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بعض دفعہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں دشمن عناصر قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ مسلمانوں کے مسلکی و گروہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی فرقے کے لوگوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنا کر دوسرے فرقے پر اس کا الزام لگا دیتے ہیں ۔ پھر دوسرا فرقہ تحقیق کئے بغیر محض جوشِ انتقام میں مخالف فرقے کو نشانہ بناتا ہے اور اس طرح