کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 41
الگ نماز پڑھ کر سوجائیں گے اور جنہیں نماز باجماعت کا خاص خیال ہو، وہ دور کی مسجد میں جاکر نماز ادا کریں گے جس میں انہیں خاصی مشکل کاسامنا کرنا پڑے گا۔ جبکہ معروف وقت سے ہٹ کر افضل وقت کو حاصل کرنے کی کوشش میں مسجد میں نمازیوں کی تعداد آدھی بھی نہ رہ جائے گی جو کہ تاخیر سے ادا کرنے کا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔ ہاں اگر کسی کی نماز کسی مجبوری یا غفلت کی و جہ سے رہ جائے تو وہ اس کو آدھی رات تک مؤخر کرکے پڑھ لے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے سفر میں نمازقصر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اب جو لوگ نماز قصر نہیں کرتے۔ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی اور فضل و کرم کو ٹھکراتے ہیں جو کہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ رات گئے یہ نماز پڑھائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ لولا أن أشق علی أمتي یعنی اگر مجھے اُمت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو یہ ہی اس کا مناسب وقت ہے۔ اس وقت پر نماز عشاء پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہیں تھا۔ معمول وہی تھا یعنی تیسری رات کے چاند کے غروب ہونے کے وقت۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہماری مشقت کا خیال رکھتے ہوئے اس وقت کو ہم سے ٹال رہے ہیں ۔ اور ہم کہیں کہ ہم اسی وقت ادا کریں گے، چاہے ہم سب مصیبت میں ہی پڑے رہیں ؛ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل و کرم اور مہربانی کو ٹھکرانے اور احسان ناشناسی کے مترادف ہے!! اللہ تعالیٰ ہمیں منکرات سے منع فرماتے ہیں اور معروف کا حکم دیتے ہیں اور غروبِ آفتاب کے دو گھنٹے بعد عشاء کی نماز ادا کرنا ہمارے ہاں معروف ہے۔ اگر اس معروف طریقہ میں کوئی مخصوص مسجد والے تبدیلی کرنا چاہیں تو عام حالات میں مسجد کی اجتماعیت کو نقصان پہنچنا لازمی امرہے۔ جبکہ نئے نئے فرقے بھی اسی طرح معرضِ وجود میں آتے ہیں ۔ البتہ اگر کسی خاص مسجد ومدرسہ میں تاخیر سے نماز ادا کرنے میں کوئی امرمانع نہ ہویا بستیوں میں موجود مساجد میں نماز پڑھنے والے عوام اور نماز پڑھانے والے علماے کرام اس کو تاخیر سے ادا کرنے پر اتفاق کرلیں تو پھر اس میں ہر طرح کی خیروبرکت شامل حال ہوگی۔ بہرحال مسلمانوں کے کاموں میں اجتماعیت کا رنگ غالب رہنا چاہئے بالخصوص ایسی صورت میں جہاں سنت ِنبوی میں اسکی رعایت پائی جاتی ہو اور موجودہ فرقہ وارانہ رجحانات کے پس منظر میں ہمیں اتفاق کے مظاہر کو ہی نمایاں کرنا چاہئے۔