کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 40
1. حضرت جابر راوی ہیں : والعشاء أحيانا يقدمها وأحيانا يؤخرها إذا راٰهم اجتمعوا عجل وإذا راٖهم أبطؤوا أخّر (مسلم :کتاب المساجد، رقم ۲۳۳) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو کبھی جلدی پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے ادا فرماتے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہوگئے ہیں ، تو جلدی پڑھ لیتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے دیر کردی ہے تو تاخیر سے ادا فرماتے۔‘‘ 2. ایک متفق علیہ حدیث میں ہے کہ عن عائشة قالت: کانوا يصلون العتمة فيما بين أن يغيب الشفق إلیٰ ثلث الليل الأول(بخاری: رقم ۵۶۹) ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عشاء کی نماز سرخی غائب ہونے سے لے کر پہلی رات کی تہائی کے درمیان تک پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث میں عشاء کی نماز کا اوّل وقت اور آخری وقت بتا دیا گیا۔ جبکہ دوسری احادیث میں آدھی رات تک کی بھی روایات ملتی ہیں ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور معمول یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی سہولت کے تحت اس کو مقدم و مؤخر کرتے تھے۔ 3. ابوداود، دارمی، ترمذی اور نسائی میں مروی ایک حدیث میں ہے کہ عن النعمان بن بشير قال أنا أعلم بوقت هذه الصلاة، صلاة العشاء الاٰخرة کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يصليها لسقوط القمر الثالثة ’’نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میں نمازِ عشاء کا وقت تم سب سے بہتر جانتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاند کی تیسری رات کو غروبِ قمر والے وقت پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اور یہ سب کو معلوم ہے کہ تیسری رات کا چاند سورج غروب ہونے کے دو گھنٹے بعد عام طور پر غروب ہوتا ہے، یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ کبھی اس میں تاخیر ہوجاتی اور کبھی اس سے پہلے بھی ادا فرمالیتے تھے۔ خلاصۂ بحث: آج کل تمام مساجد میں بھی یہی وقت معروف ہے کہ غروبِ آفتاب کے تقریباً دو گھنٹے بعد یہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ ہاں اگر کسی ادارے یا مدرسے کی خصوصی مسجد ہے جس میں باہر سے نمازی نہیں آتے تو وہ اپنی سہولت کے مطابق جب ملازمین کو چھٹی ہو یا طالب علم اپنے سبق سے فارغ ہوں ، دس گیارہ بجے بھی نماز کا وقت مقرر کرسکتے ہیں ۔ اگر عام جامع مسجد میں رات دس گیارہ بجے کا وقت مقرر کردیا جائے تو اکثر لوگ نماز کے انتظار میں ہی سوجائیں ، کئی لوگ اپنی