کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 39
’’إن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم شغل عنها ليلة فأخّرها حتی رقدنا فی المسجد ثم استيقظنا ثم رقدنا ثم استيقظنا ثم خرج علينا النبي صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال ليس أحد من اهل الأرض ينتظر الصلوة غيرکم وکان ابن عمر لا يبالی أقدمها أو أخرها إذا کان لا يخشیٰ أن يغلبه النوم عن وقتها وقد کان يرقد قبلها‘‘ ’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات کچھ مصروفیت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی یہاں تک کہ ہم لوگ مسجد میں سوگئے۔ پھر آنکھ کھلی۔ پھر سوگئے، پھر جاگے۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے برآمد ہوئے اور فرمایا: اس وقت تمہارے سوا دنیا میں کوئی نماز کا منتظر نہیں ہے۔ اور عبداللہ بن عمر (راویٔ حدیث) کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے کہ عشاء کی نماز جلدی پڑھیں یا دیر سے۔ جب ان کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ سوجانے سے وقت جاتا رہے گا اور کبھی وہ عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے بھی سوجاتے تھے۔‘‘ 3. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ان دنوں مدینہ کے سوا ساری دنیا میں اور کہیں نماز نہ ہوتی تھی۔ اور اگر انسان کو تھکاوٹ کا احساس ہورہا ہو تو عشاء کی نماز سے قبل سوجانے کی بھی رخصت ہے۔ بشرطیکہ نماز باجماعت فوت نہ ہوجائے۔‘‘ (بخاری: رقم ۸۶۴) ان احادیث سے تو یہی معلوم ہو رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب و افضل قرار دے رہے ہیں ۔ اوّل وقت پر نمازِ عشاء مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ یہ انتہائی دیر سے پڑھنا صرف ایک دفعہ کا واقعہ ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہیں تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ و حکم کے منتظر رہتے تھے اور اپنے آرام یا مرضی کا کوئی خیال نہیں رکھتے تھے، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آسانی اور آرام کو ضرور ملحوظ رکھا۔ جب دوسری احادیث کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز لو گوں کو ان کے سہولت کے وقت پڑھاتے۔ جب بھی ان کا اکٹھا ہوجانا ممکن تھا۔ عشاء کی نماز میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ اس میں لوگوں کی سہولت کا لحاظ رکھتے ہوئے وقت کا تعین کیا جائے۔ درج ذیل احادیث اس بات کا واضح ثبوت ہیں …