کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 38
جیسا لباس پہننا، حتیٰ کہ عید کے اجتماع میں ایسی عورتوں کو بھی آنے کی ترغیب دینا ، جنہیں اُن دنوں نماز معاف ہے کہ وہ عورتیں بھی آئیں اور مسلمانوں کے اجتماع میں شریک ہوں ، دعا میں شامل ہوں ، البتہ نماز سے الگ رہیں ۔ یہ سب احکام اجتماعیت ہی کا تو درس دیتے ہیں ۔ جبکہ مسجد محلے کی سطح پر ان مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ مسجد میں آئیں ۔ نماز باجماعت اداکریں ۔ آپس میں ایک دوسرے سے تعارف، ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت، دکھ سکھ میں شرکت وغیرہ مسجد کے بڑے بڑے فائدوں میں سے ایک فائدہ ہے۔جبرئیل علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواول وقت میں بھی پانچوں نمازیں پڑھائیں اور آخر وقت میں بھی اور ساتھ ہی یہ کہا۔ یہ وقت پہلے انبیاء علیہم السلام کی نماز کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ان وقتوں کے درمیان ہے۔ اس حدیث کے مطابق عشاء کی نماز جبرئیل علیہ السلام نے اول وقت اس وقت پڑھائی جب آسمان سے سرخی ختم ہوگئی اور آخر وقت تہائی رات گزرنے پر پڑھائی اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ عشا ء کی نماز کے بارے میں کون سی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ اوقاتِ نماز اور صلوٰۃ عشاء سب سے پہلی تو یہ بات ہے کہ نمازوں کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواوّل وقت کی نماز ہی یقینا محبوب تھی۔ابوداؤد اور حاکم میں صحیح روایت ہے: حضرت اُمّ فروۃ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں : ’’أفضل الأعمال الصلاة فی أوّل وقتها‘‘ ’’بہترین عمل نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا ہے۔ ‘‘ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عشاء کی نماز کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا۔جیساکہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے 1. عن عائشة رضی الله عنها قالت: اعتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات ليلة حتیٰ ذهب عامّة الليل وحتی نام أهل المسجد ثم خرج فصلی وقال: إنه لوقتها، لولا أن أشق علی أمتی (مسلم: کتاب المساجد، رقم ۲۱۹) ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں اتنی تاخیر کی کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا اور مسجد میں موجود لوگ سونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے نماز پڑھائی اور فرمایا اگر مجھے اُمت کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو نمازِ عشاء کا یہی وقت مقرر کرتا‘‘ 2. صحیح بخاری میں ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے۔ فرماتے ہیں :