کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 37
اَحکام وشرائع پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی ٭ نمازِ عشاء کا مستحب وقت؟ چند روز قبل ایک جامع مسجدمیں قاری صاحب مغرب کے بعد درسِ حدیث دے رہے تھے کہ انہوں نے بلوغ المرام سے مندرجہ ذیل حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: عن أبي برزة الأسلمي… وکان يستحب أن يوخر من العشاء، وکان يکره النوم قبلها والحديث بعدها (متفق علیہ) یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے، (کبھی آدھی رات تک کبھی ایک تہائی رات تک اس کو مؤخر کرتے تھے) اور عشاء سے پہلے سونے اور بعد از عشاء (غیر ضروری) باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ‘‘ حاضرین میں سے ایک نمازی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہم تو نماز سات بجے ادا کرتے ہیں جبکہ راتگیارہ بجے کے قریب سوتے ہیں اور پھر جاکر باتیں وغیرہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ کیوں نہ ہم نماز تاخیر سے ادا کریں اور سیدھے جاکر سو جایا کریں ۔ اس طرح بیک وقت دو سنتوں پر عمل ہوجائے گا۔ اس نمازی نے دوسرے سے بات کی، اس نے مسجد کے مہتمم سے بات کی۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ فوری طور پر دو ڈھائی گھنٹے لیٹ کرنا مناسب نہیں ۔ ہاں ہم چار پانچ دنوں کی تاخیر سے پندرہ پندرہ منٹ کا وقفہ کرتے ہوئے تقریباً ایک گھنٹہ کی تاخیر کرلیں گے۔ مگر یہ بالاقساط تاخیر شاید اس نمازی صاحب کو مناسب معلوم نہ ہوئی اور دوسرے دن چند نمازی اصل نماز باجماعت میں بالارادہ شامل نہ ہوئے اور رات ساڑھے نو بجے الگ نماز باجماعت ادا کی۔ اب اس فتنے پر کس طرح قابو پایا گیا، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نمازِ عشاء کامستحب و افضل وقت کون سا ہے یا کس وقت یہ نماز پڑھنا مناسب ہے؟ دین اسلام ہمیں اجتماعیت کا درس دیتا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سب ارکان اسلام مسلمانوں کو اتحاد، اتفاق اور اجتماعیت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ سب کا ایک ہی وقت مل کر نماز باجماعت پڑھنا، سب کا ایک ہی وقت روزہ رکھنا، حاجیوں کا ایک ہی وقت میں حج کے مناسک ادا کرنا اور ایک ہی ٭ لیکچرر گورنمنٹ شالیمار کالج ، لاہور