کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 35
گرا کر مسجدمیں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ جواب:صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ مسجد میں توسیع کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسی جگہ توسیع کرلی جائے، البتہ کسی معقول عارضہ کی بنا پر اس کو تبدیل کرنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ کشف القناع عن متن الاقناع میں ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے تبدیلی وقف پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں جامع مسجد کا کھجور کے تاجروں سے (کسی دوسری جگہ کے عوض) تبادلہ کرلیایعنی وہ اسے بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔ اسی طرح فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شارعِ عام تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کاکچھ حصہ اس میں ملا دیا تھا۔(۳/۲۸۸) حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ تصرفات اس بات کی دلیل ہیں کہ مسجد کو کسی مجبوری کی بنا پر بدلنا جائز ہے ۔ ٭ سوال:کیا غصب شدہ زمین پر نماز جائز ہے ؟ (ابوحذیفہ، چو نیاں ) جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ حنابلہ کی اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں ،ایک جواز کی اور دوسری عدمِ جواز کی۔اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک قول کے مطابق جواز کے قائل ہیں ۔ صاحب ِالمہذب فرماتے ہیں : ’’غصب شدہ زمین میں نماز ناجائز ہے ،کیونکہ یہاں اگرسکونت حرام ہے تو اس مقام پر نماز پڑھنا بطریق اولیٰ ناجائز ہوگا۔اگر کوئی یہاں نماز پڑھ لے تو نماز درست ہوگی، کیونکہ منع کا تعلق نماز سے مخصوص نہیں جواس کی صحت سے مانع ہو۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : ’’غصب شدہ زمین میں نماز بالاجماع حرام ہے اور ہمارے نزدیک اور جمہور فقہا اور اصحابِ اُصول کے ہاں نماز پڑھ لی جائے تو درست ہوجائے گی۔‘‘ میرا رجحان بھی اِسی قول کی طرف ہے کیونکہ نہی کا تعلق نفس نماز سے نہیں جو صحت ِنماز سے مانع ہو۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: المجموع شرح المہذب۳/۱۶۵ اور المغنی:۲/۴۷۶،۴۷۷ ٭ سوال:حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’’امام نے بے وضو نماز پڑھائی تو مقتدی کو بھی امام کی طرح نئے سرے سے نماز پڑھنا ہوگی۔‘‘ (فتاویٰ اہلحدیث) ابن باز رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ایسے موقعے پر مقتدی کی نماز کو صحیح کہتے ہیں ۔ درست مسئلہ کیا ہے؟ جواب: اس مسئلہ میں شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کاموقف راجح ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے: