کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 33
کے حساب سے۔ اس کی اجازت صحیح بخاری (حدیث نمبر ۲۵۱۲)میں موجود ہے۔ دیگر چیزوں کو اس پرقیاس کرنا درست نہیں ہے، جیسا کہ فتح الباری میں ائمہ کی تصریح موجود ہے۔ سوال:کیا قرآن پاک پڑھ کر پانی پر دَم کرنا جائز ہے ؟ جواب:بظاہر ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ،تاہم دم کیلئے بالا جماع تین شرائط ہیں :1. اللہ کی کلام یا اسکے اسماء و صفات کے ساتھ ہو۔2.عربی زبان میں یا معروف المعنی الفاظ کے ساتھ ہو 3. اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ دم بذاتہ مؤثر نہیں ،بلکہ اس میں تاثیر اللہ کے حکم سے پیدا ہوتی ہے۔ (فتح الباری :۱۰/۱۹۵) قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ’’دم میں نفث (بقولِ نووی: تھوک کے بغیر پھونک، بحوالہ تحفۃ الاحوذی:۳/۲۴۹) بغیر تھوک کے ہلکی سی پھونک مارنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی رطوبت یا اس کی ہوا سے تبرک حاصل کرنا مقصود ہے۔‘‘ (فتح الباری:۱۰/۱۹۷) اور جن احادیث میں پانی میں پھونک مارنے سے منع کیا گیا ہے، ان کا تعلق پینے کے وقت سے ہے۔چنانچہ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے:لا يتنفس أحدکم فی الإناء إذا کان يشرب منه یعنی ’’آدمی جب پانی پیئے تو پینے کے برتن میں سانس نہ لے۔‘‘ چنانچہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں : ’’والتنفس فی الإناء مختص بحالة الشرب‘‘ (۱/۲۵۹) یعنی ’’برتن میں سانس لینا پینے کی حالت کے ساتھ مخصوص ہے۔ ‘‘ اور صحیح بخاری میں حدیث ہے: إذا شرب أحدکم فلا يتنفس في الإناء ’’جب تم میں سے کوئی پانے پیئے تو برتن میں پھونک نہ مارے۔‘‘ سوال:بعض صحابہ سے قرآنی تعویذ کا جواز نقل کیا گیا ہے اور ایک صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ نابالغ بچوں کے گلے میں دعا لکھ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ صحابہ رحمۃ اللہ علیہ کے یہ آثار صحیح ہیں یا ضعیف اورناقابل عمل؟ جواب:گلے میں تعویذ لٹکانے والا اثر حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ہے جو کہ صحیح ثابت نہیں ہے ،کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہے ،اس نے عنعنہ سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :