کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 32
لیکن راجح بات یہ ہے کہ خالص سیاہ خضاب مطلقاً ناجائز ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جنبوہ السواد (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ، فتح الباری :۱۰/۳۵۴،۳۵۵) سوال:ایک شخص فوت ہوگیا، اس وقت اس کے ورثامیں بیوہ، دوبیٹے اور چار بیٹیاں تھیں ، بعد میں بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی فوت ہوگئے،اب ورثا میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں موجود ہیں ۔ ان کے درمیان تقسیم میراث کی صورت کیا ہوگی؟یہاں یہ واضح رہے کہ بعد میں بیٹوں نے اس جائیداد میں کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔ نیز مرحوم کی وصیت تھی کہ بیٹوں کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ جواب:مذکورہ صورت علم وراثت کی اصطلاح میں ’مسائل مناسخہ میں اختصار قبل العمل‘ کے نام سے موسوم ہے۔ اس مسئلے میں متوفیان کو کالعدم قرار دے کر وراثت صرف زندہ افراد میں تقسیم ہوگی۔جس کی صورت یوں ہے کہ کل ترکہ پانچ حصوں میں تقسیم ہوگا۔ دو حصے ایک بیٹے کے لئے اور تین حصے ایک ایک کے حساب سے تین بیٹیوں کے لئے ہیں ۔ بیٹوں نے جائیداد میں جو بعد میں اضافہ کیا ہے، اگر تو وہ فی الواقع ان کی ذاتی گرہ سے ہے تووہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا۔ اور اس صورت میں فوت شدہ بھائی کا ترکہ بھی ایک بھائی اور تین بہنوں کی طرف دو اور ایک کی نسبت سے منتقل ہوگا۔ بصورتِ دیگروہ اضافہ باپ کے ترکہ میں شمار ہوگا ،البتہ اس صورت میں بیٹوں کو ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملنا چاہئے۔ نیز مرحوم کا یہ وصیت کرناکہ بیٹوں کو شرعی حد بندی سے زیادہ حصہ دیا جائے ،کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ شریعت کے مطابق اس کی اصلاح ضروری ہے ،تاکہ موصوف اُخروی بوجھ سے بچ سکے۔ سوال:مکان گروی لینے یا دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: بوقت ِضرورت گروی مکان لینا یا دینا جائز ہے ، البتہ گروی شدہ چیز کی آمدنی، اُجرت، محصول وغیرہ سب راہن (گروی رکھوانے والے) کی ملکیت ہے اور وہی ان تمام چیزوں کا انتظام کرے گا جن پر گروی چیز کی بقا ہے۔ مثلاً پانی پلانا وغیرہ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’مرہون چیز راہن کی ملکیت ہے۔ وہی اس کے نفع کا مالک ہے اور اسی پر اس کا تاوان ہے۔ ‘‘ ( ابن ما جہ بسند حسن) حاصل کلام یہ کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہے ،وہ اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، کیونکہ وہ راہن کی ملکیت ہے، البتہ سوار ی پر سوار ہوسکتا ہے،اس کا دودھ پی سکتا ہے ،مگر خرچ