کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 3
اگرچہ وقتی طور پر سلامتی کونسل میں دوسری قرارداد پر ووٹنگ کا فیصلہ واپس لے کر ا مریکہ کو خفت اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، مگریہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل سے قرارداد واپس لیکر ایک شکست خودرہ ریچھ کی طرح عراق پر چڑھ دوڑے گا۔(نوائے وقت ۱۶/مارچ) موجودہ خوفناک صورتِ حال کے پیش نظر یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں ہے کہ ۱۷/مارچ کے بعد کسی وقت بھی مشرقِ وسطی میں جنگ کا آتش فشاں پھٹ سکتا ہے!! ’اُمت ِمسلمہ‘ اور مسئلہ عراق عراق کے نہتے اور معصوم مسلمانوں پر قیامت ِصغری کے سائے تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ بغداد اور دیگر شہروں پر آتش وآہن کی خوفناک بارش برسانے کی تیاریاں مکمل ہیں ۔لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ بحران اور آزمائش کی اس لرزہ خیز گھڑی میں اُمت ِمسلمہ کہاں کھڑی ہے؟ عالم اسلام کی قیادت نے ایک سپر پاور کی قاہرانہ جارحیت سے ایک کمزورمسلمان ملک کو بچانے کے لیے کیا حکمت ِعملی تیار کی ہے۔ حکومت ِپاکستان جس نے افغانستان کے خلاف ننگی جارحیت کے دروان ایک فرنٹ لائن سٹیٹ اور امریکہ کے وفادار ساتھی کا کردار ادا کیا تھا، عراق کے خلاف ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں کیا پالیسی اختیار کرے گی؟ اب جب کہ پاکستان میں ایک لولی لنگڑی جمہوری حکومت قائم ہوچکی ہے ، کیا اب بھی پاکستانی عوام کی اُمنگوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا؟… یہ وہ سوالات ہیں جو اُمت ِمسلمہ کا معمولی درد رکھنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں !! نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت نے اس سنگین بحران کے دوران برادر اسلامی ملک عراق کے عوام کے ساتھ اس پرجوش یکجہتی اوروالہانہ تعاون کا اظہار نہیں کیاجس کی توقع کی جارہی تھی۔گزشتہ چار ماہ سے عراق کے خلاف عسکری جارحیت کی تیاریاں کی جا ری ہیں مگر اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کا سربراہی اجلاس ابھی چند روز پہلے یعنی ۵/مارچ کو منعقد کیا جا سکا۔اس اجلاس میں اگرچہ متفقہ طور پر ممکنہ امریکی حملے کومسترد کر دیا گیا، تا ہم امریکہ کو اڈّے فراہم کرنے کے معاملے پر مسلمان رہنماؤں میں اختلافات رہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اجلاس میں پہلے سے تیار کردہ اعلامئے کی زبان میں نرمی پیدا کی گئی جس میں مسلم