کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 29
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کانتیجہ بھی بہتر ظاہر ہوا ہوتا تو مسیحی راہبوں کو کس قدر زیب دیتا کہ ہمارے حضرت سرورِ انبیا صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مقابلہ کرنا شروع کرتے جنہوں نے کہ اپنی عین حیات میں تمام عرب سے شرک، بت پرستی، اخلاقی فواحش، شراب خوری، زنا، خانہ جنگی، قمار بازی، قتل دختراں ، خیانت، بے رحمی اورقطع رحمی وغیرہ قسم کی برائیوں کوکامل طور پر نیست ونابود کرکے ان کی جگہ توحید ِکامل، احصان، عفت و عصمت، حقیقی اُخوت و محبت و مودّت کو رواج دیا۔ اور اس طرح ایک یا دو مردوں کو نہیں ، بلکہ تمام کی تمام مردہ قوم کو زندہ کردیا۔ اور چند اندھوں اور کوڑھیوں کو تندرست نہیں بلکہ اندھوں اور کوڑھیوں کے ایک عالم کو تندرست کر دکھایا اور حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چالیس ہزار فدائیوں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرکے دنیا کو صاف بتلا دیا کہ ’’ہاں بالضرور، اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا۔‘‘ اس وقت مختصراً ہمارا منشا فقط یہی ثابت کرنا تھا کہ صرف مسیح کے معجزات نہ توعقلاً اور نہ ہی واقعات کی بنا پر ان کے لئے باعث ِشرف و مزیت ہیں ۔اصل شرف کی بنیاد دوسری چیزیں ہیں ۔ لیکن چونکہ اسلام نے ہمیں اس بحث میں پڑنے کی اجازت نہیں دی جیسا کہ نبی کریم کا فرمان بھی پیچھے گزر چکا ہے، لہٰذا مسلمانوں میں اس انداز پر سوچنے کے لئے ذہن تیار ہی نہیں ہوتے۔ اوپر کے پیراگراف میں بھی الزامی جوا ب کے طور پر جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں ، خدشہ ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمان اس کو بھی پسند نہ کریں ۔ سو انبیا کی باہمی فضیلت والی اس بحث سے مسلمان تو دور ہی بھلے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اس طرح کے غلط صغرے کبرے قائم کرکے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور اسلام کو مطعون کرنے کا بہانہ بنا لے۔ ہم نے یہ مضمون اسی مقصد کی وضاحت کے لئے تحریر کیا ہے۔ قرآنِ کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے اسی جگہ استردادا پادری کی ایک اور غلط بیانی کی تصحیح ضروری معلوم ہوتی ہے ؛انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مذکور نہیں ۔ مشتے نمونہ از خروارے ہم چار معجزوں کا ذکر کرتے ہیں ، جو قرآن حکیم میں مذکور ہیں : 1 شق القمر کا معجزہ: ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ﴾ (القمر:۱)