کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 28
نے تو آپ کو چند حقیر سکوں کے بدلے (انجیل متی: باب ۲۶/ آیت ۱۵/ مرقس: باب ۱۴/ آیت۱۰،۱۱/ لوقا: باب ۲۲/ آیت ۳تا۶) گرفتار کروایا اور باقی گیارہ خوفِ مرگ سے بھاگ گئے اور ان میں سے سب سے افضل نے مرغے کی دو اذانوں کے وقفہ میں اپنے پیغمبر کی تین دفعہ تکذیب کی اور ایک دفعہ اس کو ملعون ٹھہرایا۔(انجیل یوحنا: باب ۱۸/آیات ۱۵ تا ۱۸ و لوقا: باب۲۲/ آیات ۵۴ تا ۶۲) ہم اس پر مفصل بحث بعد میں کریں گے۔ ان شاء اللہ فی الحال ہم فقط یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ موجودہ محرف عیسائی اعتقادات کی رو سے اگر مسیح بجائے چند معجزات دکھلانے کے ایک درجہ کا اخلاقی کوڈ لاتے، جس سے ان کے سامعین کے دلوں میں اعلیٰ اخلاقی اُصول سرایت کرجاتے اور اگر وہ چند اندھوں اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے کی بجائے اخلاقی کوڑھیوں اور اندھوں کو تندرست کرتے اور بجائے تثلیث کے توحید ِخالص اور بجائے تین خدا پراعتماد کرنے کے خدائے واحد بلند و برتر پر اعتماد کی تعلیم دیتے۔ (جبکہ امر واقعہ ایسا نہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوچکا ہے، لیکن عیسائی راہب تو انہی باتوں کی تعلیم دیتے ہیں ۔) کیونکہ ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ روحانیت اور اعلیٰ اخلاق کے متلاشی کے لئے تثلیث و کفارہ کا عقیدہ کسی طرح بھی سانپ اور بچھو اور زہرہلاہل سے کم نہیں ہے۔ تو ان کو یہ روزِ بد دیکھنا نصیب نہ ہوتاجس کا ذکر ہم اوپر کرآئے اور جس کا جواب اب تک مسیحی دنیا دینے سے قاصر ہے، اب بتلاؤ کہ اس معیار کا کیا جواب ہے؟ انہی عیسائیوں کو یہی جواب ایک اور انداز سے اور انہی کی انجیل کی رو سے… ’’اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا اور نہ بُرا درخت اچھا پھل لاسکتا ہے۔‘‘ … اگر مسیح کی تعلیم اچھی تھی تو اس کا پھل ایسا بُرا کیوں نکلا۔ اگر محض معجزات کا صدور ہی ایک شخص کو اُلوہیت کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اوراسے سب انبیا سے افضل و برتر بنا دیتا ہے تو پھر حضرت مسیح کی تعلیم کا نتیجہ صرف بارہ منافقین کو داخل مسیحیت کرنے کی صورت میں ظاہر کیوں ہوا؟ کیا مردوں کا زندہ کرنا بہتر تھا یا ان بارہ منافقین کے مردہ دلوں میں روحِ اخلاق کا پھونکنا۔ کیا مادر زاد اندھوں کوڑھیوں کو چنگا بھلا کردینا زیادہ مفید ِمطلب ہوتا یا اس بارہ اخلاقی اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنا؟