کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 27
مانگے تو اسے سانپ دے۔ پس جبکہ تم بڑے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے، اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں نہ دے گا۔‘‘ (باب ۷/ آیت ۹ تا۱۱) پس نبی جو کمالِ توحید الٰہی اورتزکیۂ نفوس و تہذیب ِقلوب اور پرانے رسم و رواج کو بدعات کی الائشوں سے پاک کرنے اور قوانین الٰہی میں جو فتور واقع ہوتے ہیں ، ان کودور کرنے کے لئے آتا ہے۔ اگر محض چند معجزات دکھلا کرچلتا بنے۔ اور لوگوں کو طلب ِہدایت کی پکار میں چند ’فوق الفطرت‘ افعال دکھلا کر رخصت ہو جیسا کہ حضرت مسیح کی زندگی کے مطالعہ سے جو اَناجیل اربعہ میں موجود ہے،ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کی وہی مثال ہے کہ اس کے بیٹے نے مچھلی مانگی اور وہ اسے سانپ دے کر چلتا بنا اور اس نے روٹی مانگی اور وہ پتھر دے کر سدھارا۔ اس حالت میں حضرت مسیح کے اپنے فرمان کے مطابق ان کے آسمانی باپ کے متعلق ہم کوئی اچھی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اسی باب میں آگے چل کر حضرت مسیح صاف اقرار فرماتے ہیں کہ معجزات ثبوتِ نبوت نہیں ہوسکتے، چہ جائیکہ وہ ثبوتِ اُلوہیت ہوں ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’جھوٹے نبی بھی معجزات دکھلائیں گے۔ اور جو جو کام حضرت مسیح نے کئے ہیں ، وہی وہ بھی کریں گے یعنی بدروحوں کو نکالیں گے۔ وغیرہ وغیرہ ‘‘ (انجیل متی: باب ۷/ آیت ۲۲) اور پھر نبوت کا معیار بتاتے ہیں : ’’ (۱۶)ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوگے۔ کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں … (۱۷) اس طرح ہر اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے … (۱۸) اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا، نہ بُرا درخت اچھا پھل لاسکتا ہے… (۱۹) جو درخت اچھا پھل نہیں لاسکتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتاہے… (۲۰) پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لو گے۔‘‘ (۱۶ تا ۲۰) آیاتِ مندرجہ بالا میں حضرت مسیح نے صاف کہہ دیا ہے کہ نبوت کو تم ان کے نتائج سے پہچانو گے اور ذرا آیت ۱۸ پر غور کیجئے اور پھر اسے حضرت مسیح علیہ السلام کے نتائج نبوت پر چسپاں کیجئے۔ تو دیکھئے کہ خود حضرت عیسیٰ کی تمام عمر کی تعلیم کا صرف یہی نتیجہ نہیں نکلا کہ توحید کی بجائے تثلیث پھیل گئی اور آپ کے ساتھ بارہ منافقین کی جماعت پیدا ہوئی جن میں سے ایک