کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 26
تھے( گو دنیا کا نقطہ نظر ان سے کہیں مختلف ہے) منسوب کیا ہے۔ وہاں افتخار بہ عفت ِوالدہ کا شرف قابل ذکر ہی نہیں سمجھا کیونکہ کوئی سادہ لوح آدمی بھی اس حسب کو و جہ ِشرف و مزیت خیال نہیں کرتا۔ اب ہم اس و جہ کے علاوہ جو اوپر ذکر ِمریم و پیدائش میں لکھ آئے ہیں اور ہر عقلمند سے جس کا جواب بخوبی مل سکتا ہے، بڑے زور سے یہ کہیں کہ بی بی آمنہ کا یہی شرف کیا کم ہے کہ وہ آنحضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں تھیں جو تمام انبیا علیہم السلام کے سردار، ان کی تعلیمات کے پورا کرنے والے اور نبوت کے سلسلہ کو مکمل و ختم کرنے والے اور اللہ کی تعلیم کو قائم کرنے والے تھے اور اس بنیاد پر یہ ثابت کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر تھے۔ اسلام نے اس سلسلے میں کمالِ اعتدال اور حسن ادب ملحوظ رکھا ہے۔ اگر آج مسلمانوں میں نبی آخر الزمان کے حوالے سے دوسرے انبیا پر فضیلت قائم کرنے کی کوششیں نہیں ملتیں تو اس کی وجہ نبی کریم کا یہ سنہرا فرمان ہے ، جس نے اس بے کاربحث کو سرے سے ہی ختم کردیا، آپ نے فرمایا: لا تفضلوا بين أنبياء ﷲ (بخاری: ۳۴۱۴، مسلم: ۶۱۰۲) ’’ انبیا کے درمیان فضیلت کا مقابلہ نہ کیا کرو…‘‘ ایک روایت میں ہے: لا يقولن أحدکم إنی خير من يونس بن متی(بخاری: ۳۴۱۲) ’’تم میں سے کسی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ کہے کہ میں حضرت یونس سے افضل ہوں ۔‘‘ نبی کا مدارِ فضیلت رہا صدورِ معجزات و رفع الی السماء، سو ا س کی نسبت ہم عیسائیوں کے جواب میں انہی کی الہامی تعلیم کو پیش کرتے ہیں ۔ انجیل متی میں حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’درخت کو تم اس کے پھلوں سے پہچانو گے۔‘‘ ( باب۷/آیت ۲۰) لہٰذا ایک نبی کا مدارِ فضیلت فقط اس کی تعلیم اور تعلیم کے نتائج و اثرات ہی ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ یہی ثمراتِ نبوت سے تعبیر کئے جاسکتے ہیں نہ کہ معجزات کہ ان میں محض خدا کی قدرت کے اظہار کے لئے نبی ایک آلہ محض ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس امر کا اعتراف خود حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نبوت میں و جہ ترجیح فقط نتائج نبوت ہی ہوسکتے ہیں ۔ دیکھو انجیل متی ’’ تم میں سے کون ایسا آدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو اسے پتھر دے، یا اگر مچھلی