کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 25
کارٹ ہتھیلی پرسرسوں جما لیتا تھا یا سوکھے درخت کو ہرا کردیتا تھا تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص قابل التفات بھی نہیں کیونکہ ہر دو اشخاص کے مقابلہ میں ایک خاص معیار ہونا چاہئے۔ اگر دو شخصوں کا از روئے حسن مقابلہ ہورہا ہے تو اس وقت ان کی ریاضی دانی کو معرضِ بحث میں لانا اور مدارِ فضیلت بنانا کمالِ حماقت ہے۔ اگر دو شخصوں کا مقابلہ از روئے اخلاق ہورہا ہے تو اس میں ان کی جغرافیہ دانی یا طب کو معیارِ فضیلت بنانا کمالِ جہل کی نشانی ہوگا۔ اسی طرح یہ بدیہی ا مر ہے کہ جس حیثیت سے دو اشخاص کا مقابلہ ہوگا، وہی حیثیت مدارِ فضیلت ہوسکتی ہے نہ کہ دیگر خارجی اُمور۔ اسی طرح جب دو انبیا کرام علیہما السلام کا مقابلہ کیا جائے تو اس میں حسب و نسب، صدورِ معجزات وغیرہ خارجی اُمور ہیں جو کسی طرح بھی مدارِفضیلت نہیں ہوسکتے بلکہ فرائض نبوت کی ادائیگی، اصلاح بین الناس اور نتائج نبوت ہی معیارِ فضیلت ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ دنیا میں جس قدر بڑے آدمی گزرے ہیں وہ ہمیشہ اپنی قابلیت، جہانبانی و جہانداری اور اصلاح بین الناس سے اپنے باپ دادا کے نام کو اوجِ فلک پر پہنچا دیتے ہیں اور انہیں حیاتِ جاوید بخشتے ہیں ، نہ یہ کہ اپنے آباؤ اجداد کی ناموری پر اُدھار کھائیں ۔ کیاپادری صاحب ایک مثال بھی بتا سکتے ہیں جس میں دنیا کے کسی شخص کو محض اس کے حسب و نسب کی بنا پر بڑا آدمی یا لیڈر آف مین تسلیم کیا ہو۔ ارسطو، افلاطون، سقراط، زرتشت، ابراہیم و موسیٰ، سیزرولائینز و نیوٹن، ڈیکارٹ، شارلی مین، نپولین اعظم الغرض جتنے نام آپ کا جی چاہے، گن جائیں ۔ ان میں سے کون ہے جس نے باپ دادا کی ناموری کی وجہ سے شہرتِ دوام حاصل کی ہو۔ اگر پادری صاحب کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو حضرت عیسیٰ کی کمالِ تنقیص لازم آتی ہے کیونکہ وہ اپنی افضلیت کے لئے اپنی والدہ کی شہرت کے محتاج ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اناجیل اربعہ کے مؤلفین ان پادری صاحب سے کہیں زیادہ عقلمند اور دور اندیش تھے کہ انہوں نے فسانۂ مسیح (کیونکہ اناجیل کو ایک فسانہ سے زیادہ وقعت نہیں دی جاسکتی) تالیف کرتے وقت جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بہت سی قبائح وذمائم کوبھی جنہیں وہ اپنے زعم باطل میں محاسن خیال کرتے