کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 24
’’جب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھلا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ اللہ نے کہا: کیا تمہیں ایمان نہیں ،جواب دیا : ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی۔فرمایا: چار پرندے لو اوران کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر انکا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو ۔ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے۔‘‘ ایک اور مقام پر مؤمنوں کو خطاب فرمایا: ﴿ يٰاَايُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰه وَلِلرَّسُوْلِ إذَا دَعَاکُمْ لِمَا يُحْيِيْکُمْ﴾ ’’ا ے ایمان والو! اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں ۔‘‘ (الانفال:۲۴) یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہی کام کیاجو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کرتے تھے۔ دوسرے مقام پر حضورِ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کو اللہ نے اپنی پکار بتایا اور ان کی دعوت کو حیات بخش بتلا یا کہ اسلام کی دعوت ہی اصل حیات بخش دعوت ہے۔ تو ان آیات سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اُلوہی صفات ثابت کرنے کی کوشش کرنا کمالِ جہالت ہوگی۔ مقابلہ انبیا میں سب سے بڑی غلطی اصل بات تو یہ ہے کہ مصنف ’حقائق القرآن ‘مقابلہ و موازنہ انبیا میں بہت ہی ٹیڑھے رستہ پڑ گئے ہیں ۔ اور وہ بڑی فاش اُصولی غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ حسب ونسب،معجزات یا رفع اِلی السماء کسی طرح بھی مدارِ فضیلت نہیں ہوسکتے۔ یہ امر اس قدر واضح ہے کہ اس پر کچھ لکھنا فضول ہے کیونکہ اگر کوئی شخص دو بادشاہوں کا مقابلہ کرتے وقت یہ کہے کہ زارا روس شاہِ انگلستان سے بہتر بادشاہ تھا، کیونکہ پلاؤ پکانا اچھا جانتا تھا یا موسیوپائین کارے صدرِ فرانس، نیوٹن اور لائینز سے بہتر ریاضی دان ہے کیونکہ اس کا باپ بہت بڑا ریاضی دان تھا جبکہ نیوٹن اور لائینز دونوں کے والدین ریاضی سے بالکل بے بہرہ تھے۔ یا یہ کہے کہ نپولین ثانی، ڈیوک آف ولنگٹن سے بڑا جنرل ہے کیونکہ ڈیوک ایک غیر معرو ف ماں باپ کا بیٹا تھا اور نپولین ثانی نپولین اعظم کا بیٹا یا پوتا تھا جو دنیا کا مشہور و معروف ترین جنرل تھا۔ یا ڈے کارٹ ارسطو سے بڑا فلسفی تھا کیونکہ ڈے