کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 23
1.﴿ وَإذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ کَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَکُوْنُ طَيْرًا بِإذْنِیْ وَتُبْرِیُٔ الاَکْمَهَ وَالاَبْرَصَ بِإذْنِیْ وَإذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِإذْنِیْ﴾ ’’اے عیسیٰ ابن مریم! یاد کر جب تو میرے حکم سے پرندوں کی سی صورت مٹی سے بناتا تھا۔ پس اس میں پھونک مارتا تھا۔ پس وہ میرے حکم سے سچ مچ کا پرندہ ہوجاتا تھا۔ پھر تو مادر زاد اندھے کو اور برص والے بیمار کو میرے حکم سے شفا دیتا تھا اور مردوں کو میرے حکم سے جلاتا تھا۔‘‘ (المائدۃ:۱۱۰) 2. ﴿ وَإذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَايَکُوْنُ لِیْ أنْ أقُوْلَ مَالَيْسَ لِیْ بِحَقٍّ﴾ ’’اور جب اللہ کہے گا: اے عیسیٰ مریم کے بیٹے! کیا تم نے لوگوں سے کہا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود (یعنی خدا کا بیٹااور اُلوہی طاقتوں سے متصف) بنا لو تو عیسیٰ عرض کریں گے کہ پاک ہے تو، مجھ سے کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ با ت کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ تھا؟ اگر میں نے کہا ہوتا تو اللہ تو جانتا ہے۔ میں نے تو ان سے یہی کہا کہ ایک اللہ کی پرستش کرو جو تمہارا اور میرا پالنے والا ہے۔‘‘ (المائدۃ: ۱۱۶) قارئین! ان سب آیات پر غور کریں کہ کس طرح ان آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اُلوہی صفات سے متصف ہونا پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس عظیم الشان تردید کو لیجئے کہ ’’میں نے نہیں کہا، مجھ سے کیسے ہوسکتا تھا کہ میں ناحق بات کہوں ؟‘‘ یعنی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے دعویٰ اُلوہیت کی تردید کرائی ہے۔ پھر ہر انعام کے بعد بإذني کے اضافہ پر غور کیجئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ یہ سارے کام خود نہیں بلکہ اللہ کی تائید اور اس کی خصوصی عطا ( معجزہ) کے طور پر کرتے تھے۔ اور یہ بات ہر صاحب نظر پر واضح ہے کہ 1. نجار کا تیشہ نجار، لوہار کا ہتھوڑا خود لوہار اور انجینئر کا میٹر خود انجینئر نہیں ہوتا ، اسی طرح 2. معجزات کے صدور میں ہمیشہ اللہ کو اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اور قرآن میں دیگر انبیا کے متعلق بھی ایسا مذکور ہے ، یہ صرف مسیح کی خصوصیت نہیں ہے: ﴿ وَإذْ قَالَ إبْرَاهِيْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰی؟ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤمِنْ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ أرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إلَيْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْئً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَاتِيْنَکَ سَعْيًا﴾ (البقرہ:۲۶۰)