کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 22
اَ د یان و مذ ا ہب مولانا محمد علی قصوری [ دسمبر۲۰۰۲ء کے بعد دوسری قسط] ایم اے، کینٹب کیا قرآن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں اُلوہی صفات تھیں ؟ قرآنِ کریم میں تعلیم توحید اور مخالفین کی شہادتیں یہ ہوسکتا تھاکہ آیاتِ براء ت کو پادری صاحب نے بو جہ اپنی لاعلمی اور قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مدارِ فضیلت قرار دے دیا ہو اور دیدہ دانستہ ایسا حق کش رویہ اختیار نہ کیا ہو۔ لیکن ان کا یہ بیان کہ’’ قرآن خود عیسیٰ کی اُلوہی صفات کا مؤید ہے‘‘ ایک ایسا سفید جھوٹ اور صریح افترا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے حسن ظن کا موقعہ ہی نہیں رہتا۔ اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ تعصب کی پٹی نے ان کو بالکل اندھا بنا دیا ہے اور وہ ارادۃً جھوٹ بولنے سے نہیں ٹلتے اور یہ کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم اُلوہیت مسیح کا مؤید ہے۔ پادری ای ایم ویری کو بھی کتاب ’دین اسلام‘ میں جو انہوں نے اسلام کی تردید میں لکھی ہے، اس امرکے اعتراف کے سوا کوئی چارہ کار نظرنہ آیا کہ ’’قرآن میں توحید پر ایسا زور دیا گیا ہے کہ خدا کی توحید میں شرک کو دخل ہو ہی نہیں سکتا‘‘ فاضل مصنف ’لی بان‘ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف کتاب’انقلابِ اُمم‘ میں صاف لکھا ہے : ’’اسلام کی مابہ الامتیاز دو چیزیں ہیں : ایک اس کی بے لوث توحید جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے اور دوسرا عمل اُخوت۔ ‘‘ ’’الفضل ما شهدت به الأعداء‘‘ قرآنِ کریم سے حضرت عیسیٰ کی اُلوہیت پرپادری کے دلائل مصنف ’حقائق القرآن‘ نے جس آیت سے حضرت عیسیٰ میں اُلوہی صفات کی موجودگی کا استدلال کیا ہے، وہ ان کے خبث ِباطن کی دلیل ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس آیت کا سرا جو فی الحقیقت حضرت عیسیٰ کی اُلوہیت کی تردید میں ہے، لے کر اس سے استدلال کرنا شروع کردیا ہے۔ مکمل آیت یوں ہے: