کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 20
میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ اگر انہیں پاکستانی عوام کی اُمنگوں کا واقعی لحاظ ہے جیسا کہ جمالی صاحب نے ارشاد فرمایا، تو پھر انہیں عراق پر ممکنہ امریکی جارحیت کی کھل کر مخالفت کرنی چاہیے، اس سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت یاخوف کو بالائے طاق رکھ کر بات کرنی چاہیے۔ اگر ان کے دلوں میں عالمی ضمیر اور عالمی برادری کے جذبات کاذرّہ بھر بھی احساس ہے، تو پھر ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ عالمی ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور امریکہ کی ناراضگی کو در خورِ اعتنا نہ سمجھیں ۔ اگر وہ پاکستان کے حقیقی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں توانہیں عراق کے خلاف بلا جواز عسکری جارحیت کی ہرگز حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کل کلاں اگر بھارت پاکستان کے خلاف در اندازی یا کسی اور بے بنیاد الزام کی بنا پر جارحیت کاا رتکاب کرتا ہے تو پاکستان عالمی برادری کی اخلاقی حمایت حاصل کر سکے گا۔ پاکستان ابھی سوچ ہی رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ سفارتی کوششوں اور اخلاقی دباؤ کو ناکام دیکھتے ہوئے امریکی صدر جارج بش نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ۱۶/مارچ کو پاکستان پر فوجی حکومت کی وجہ سے لگنے والی امریکی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔جارج بش اس غیر متوقع لطف وکرم کا فوری سبب یہ بیان کرتے ہیں :’’ اس طرح پاکستان کو مکمل جمہوریت کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔‘‘ ( نوائے وقت ) گویا موصوف کوعین اس وقت پاکستان میں جمہوریت کی فکر کا دورہ پڑا ہے ۔امریکی صدر نے ایک اور مژدۂ جانفرا بھی سنایا: ’’ میں جمالی کو امریکہ آمد پر ۲۸/مارچ کو خوش آمدید کہوں گا۔ ‘‘ گویا موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم کی وائٹ ہاؤس میں باریابی ایک اتنا بڑا اعزاز ہے کہ جس پرریجھ کر جمالی صاحب امریکہ کے حق میں ووٹ دے دیں گے۔جارج بش صاحب جو اپنی قوم کے دانشوروں سے سفاہت وغباوت کے اَلقاب حاصل کر چکے ہیں ، پاکستانی قوم کے بارے میں یہ ’حسن ظن‘ رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ’خلوص‘ کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی۔ موصوف نجانے کیسے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو موم کرنے کے لیے محض ان کھوکھلے اعزازات کی پیش کش ہی کافی ہے۔کوئی حکمت ودانش سے عاری شخص ہی اسی سفارتی رشوت کے اصل عزائم کو سمجھنے سے قاصر رہے گا …!! موجودہ حالات میں امریکی قیادت کے جنگی جنون کی حمایت کا معمولی سا تاثر بھی پاکستان