کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 19
کو ’دراندازی‘ کے الزامات سے متّہم ٹھہرایا جا رہا ہے۔امریکہ ہمیں بھارتی جارحیت کے خلاف تحفظ تو کیا فراہم کرے گا، پاکستانیوں کو رجسٹریشن جیسے ظالمانہ قانون سے مستثنیٰ قرار دینے کی ہماری لجاجت آمیز درخواست کو بھی قابل پذیرائی نہیں سمجھا گیا۔۱۰۳/ پاکستانیوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر پاکستان بھیجنے کی تصاویر کیا کم عبرت آموز ہیں …؟ (۱۴/مارچ کے تمام اخبارات) جناب مشرف جو امریکی پریس سے ’ہیرو‘ کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں ، خود ہی پاکستان کی باری آنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں ۔جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے عراق کے بعد جن ممالک کی باری کا برملا اعلان کیا ہے، ان میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔عراقی کی فوجی وسیاسی مشاورتی فرم ’سٹریٹ فور‘ کے چیف انٹیلی جنس آفیسر ڈاکٹر جارج فورمین نے انتباہ کیا ہے : ’’عراق کے خلاف جنگ میں شرقِ اوسط اور خلیج کے علاوہ جنوبی ایشیا کا نقشہ بدل جائے گا۔ دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکامی کا الزام لگا کر پاکستان کے خلاف کاروائی ہو گی۔ الزام لگایا جائے گاکہ پاکستان نے جان بوجھ کر دہشت گردوں سے آنکھیں بند کیے رکھیں ۔‘‘(جنگ: ۱۵/مارچ) پاکستان پر شمالی کوریا کوایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا شرارت انگیز الزام بھی عائد کیا جارہا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بنیاد پرستوں کے قبضہ کا یہودی پریس مسلسل خدشہ ظاہر کر رہا ہے۔ ان حالات میں امریکہ اور پاکستان کی ’دوستی‘ کا ’ ہنی مون‘ بہت دیر تک چلتا دکھائی نہیں دیتا !! ۱۲/مارچ کو سیکورٹی کونسل میں امریکہ کی دوسری قرارداد پر ووٹنگ ہونی تھی جو مطلوبہ اکثریت نہ ملنے کے خدشہ کے پیش نظر چند دنوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ چند دنوں میں اسے دوبارہ پیش کیا جائے گا۔پاکستان اس وقت سیکورٹی کونسل کے ۱۵/ارکان میں شامل ہے۔امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ حکومت ِپاکستان سخت آزمائش سے دوچار ہے۔صدر پرویز مشرف سیکورٹی کونسل میں پاکستان کی رکنیت کو ’بدقسمتی‘ قرار دے چکے ہیں ۔وزیر اعظم جناب جمالی نے بھی کہا ہے کہ وقت آنے پر دیکھاجائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ووٹنگ کے عمل میں غیر حاضر رہنے کو ترجیح دے گا۔حکومت ِپاکستان کے اربابِ بست وکشاد جو جی میں آئے، کر گزریں مگر ہم ان کی خدمت