کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 18
ممکنہ جنگ کو مسترد کرتے ہوئے اس مسئلے کا پر اَمن حل تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔ ان حالات میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا فلسفہ بھی قابل فروخت نہیں ہے۔ مصالح دینیہ اور اخلاقی داعیہ تو ایک طرف، عراق کے خلاف امریکہ کی حمایت کے لیے کوئی ’مصالح کلیہ‘ اور ’مقاصد علیا‘ تراشنا بھی کسی دانشور کے ذہن ِرسا کے لیے آسان نہیں ہے کہ دانش مندوں کولائق نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے حکمت ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں ۔ ہم نہیں کہتے کہ جن لوگوں نے افغانستان کے معاملے میں امریکہ کی حمایت کو پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا، وہ جہل وسفاہت کے پیکر تھے، مگر افغانستان کے مسلمانوں کو جن زہرہ گداز مصائب سے گزرنا پڑا، اس کے پیش نظر ان کی سوچ کو تدبر، لیاقت اور حکمت وفراست کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اب بھی جو لوگ امریکہ کی ناراضگی مول نہ لینے کے مشورے دے رہے ہیں ، وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ کون سے مفادات ہیں جن کے حصول کی خاطر اس قدر بے اُصولی پر مبنی اور عالمی ضمیر سے متصادم پالیسی اختیار کی جائے۔اگر ’مفادات‘سے ان کی مراد امریکی ڈالروں کا حصول ہے توافغانستان کے معاملہ میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادار کرنے کے باوجودحکومت پاکستان کو اب تک کیا ملا ہے جس کی توقع اب کی جا سکتی ہے۔ اگر ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ اس طرح وہ اپنے اَزلی دشمن بھارت کی ممکنہ جارحیت کے خطرے سے محفوظ رہیں گے تو یہ محض ان کی خام خیالی ہے۔نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں اس قد پرجوش حمایت کے باوجود پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول اور دیگر امریکی پالیسی سازوں کے بیانات ہمارے لیے غور وفکرکا کافی سامان رکھتے ہیں ۔کوئی ضریر البصر(اندھا)شخص ہی ایسے ننگے اور بے رحم حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے کسی خیالی امریکی چھتری کے سائے میں پناہ ڈھونڈنے کی بات کر سکتا ہے۔آخر کب تک ایٹمی پاکستان کو بھارت کا خطرہ مسلط کر کے یوں بلیک میل کیا جاتا رہے گا؟ اگر پاکستانی قیادت اس بلیک میلنگ سے باہر نہ نکلی تو پاکستانی قوم میں بزدلی، خوف اور دہشت زدگی کی نفسیات پیدا ہو جائے گی۔ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہمارا مورال بلند نہ رہے۔ امریکہ کو اڈّے فراہم کرنے اور جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے بعد بھی پاکستان