کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 17
ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟ عراق کی موجودہ صورتحال کا موازنہ ۱۹۹۱ء کے حالات سے کیا جا سکتا ہے ، نہ افغانستان پر امریکی حملے سے اس کی کوئی مماثلت ہے۔۱۹۹۱ء میں عراق نے کویت کے خلاف ننگی جارحیت کی تھی اور سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس کے خلاف جنگ میں شریک تھے۔ ۱۱/ستمبر کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر فوجی یلغار کی تو حکومت ِپاکستان نے امریکہ کے شدیددباؤ،بھارت کی ممکنہ جارحیت اور مزعومہ عالمی برادری کے اخلاقی دباؤ کا سہار لے کر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر اب نہ تو امریکہ کی طرف سے کوئی ایسا دباؤ ہے کہ جس میں کہا گیا ہو کہ آپ فیصلہ کریں کہ ’’یاآپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن ہیں ۔‘‘ عالمی برادری میں تنہا ہوجانے کا بھی کوئی خدشہ نہیں ہے ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ عالمی برادری اور عالمی ضمیر واضح طور پر عراق پر امریکی حملے کے خلاف ہے۔ برطانیہ اور سپین کے علاوہ کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جس نے امریکہ کی حمایت کی ہو۔ان ممالک کے عوام نے بھی ممکنہ جنگ کے خلاف بھر پور احتجاج کیا ہے۔ ٹونی بلیر کی کابینہ کے دس ارکان نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت عراق پر حملے کے حق میں نہیں ہے۔عوام کی تو بات ایک طرف، ا مریکہ کے سابق صدور بل کلنٹن اور جمی کارٹر نے واضح طور پر عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت کی ہے اور اس جنگ کا اصل مقصد ’تیل پر قبضے‘ کو قرار دیا ہے۔ (نیو یارک ٹائمز۱۰/مارچ) بعض خبروں میں عراقی تیل کے بعض کنویں اسرائیل کے حوالے کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ تاکہ اسرائیل کو اقتصادی لحاظ سے بھی ایک برتر ملک بنادیا جائے اور امریکی حکومت کو اسرائیل کی مستقل مالی امداد میں کچھ ریلیف مل سکے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کوفی عنان جو ہمیشہ امریکی صدر کی چشم ابرو کے اشارے کے منتظر رہتے تھے، وہ بھی امریکہ کو کھری کھری سنا رہے ہیں ۔ وہ دو مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عراق پر حملے کا فیصلہ سلامتی کونسل کا کام ہے اور منظوری کے بغیر حملہ یا صدر صدام کو ہٹانے کی کاروائی اقوامِ متحدہ کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ غیر وابستہ تحریک کے ۱۱۶/ ارکان، اسلامی سربراہی کانفرنس کے ۵۷/اسلامی ممالک اور افریقی کانگریس کے ۴۵/ممالک کی تنظیموں نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے عراق کے خلاف