کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 15
کے مسلمان ملکوں کے خلاف ایسے عزائم ہوں کہ مسلم ممالک کے خلاف حملے کی صورت میں مسلم ہند ان کی حمایت کی غرض سے کھڑا ہونے پر مجبور ہو جائے گا اور انہیں جملہ حمایت فراہم کرے گا جو وہ کرسکتا ہے۔‘‘ (’قائد اعظم؛ تقاریر وبیانات ‘ جلد دوم/ ص ۳۹۹،شائع شدہ بزمِ اقبال ) اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کے لیے ۱۱/اکتوبر۱۹۴۰ء کو مسلمانانِ ہند سے یکم نومبرکو’یومِ مسلم ممالک‘ منانے کی اپیل کی۔ ’ دی سٹارآف انڈیا‘ نے اے پی آئی کے حوالے سے ۱۲/اکتوبر ۱۹۴۰ کو ان الفاظ میں خبر شائع کی : ’’ مسٹر ایم اے جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے اعلان کیا ہے کہ یکم نومبر کو ’یوم مسلم ممالک‘ منایا جائے جس کا مقصد مسلمان ممالک کے حق میں مسلم ہند کے گہرے جذبات ہمدردی اور تشویش کا اظہار اور مظاہرہ کرنا ہو، تا کہ مسلم ممالک کے خلاف ممکنہ عزم یا ان کی آزادی کے خلاف جارحانہ اقدامات کو روکا جا سکے۔‘‘ (حوالہ: ایضاً) اس بیان میں قائد اعظم نے فرمایا: ’’آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد کے مطابق جس میں مجھے ایک دن مقرر کرنے کا اختیار دیا گیاتھا،میں نے یکم نومبر کا دن مقرر کر دیا ہے جو رمضان المبارک کاآخری جمعہ یعنی جمعتہ الوداع ہوگا تا کہ اس دن مسلم ممالک کے حق میں مسلم ہند کی طرف سے گہرے جذبہ ہمدردی کا اظہار اور مظاہرہ کیا جائے۔اس نازک لمحے میں جب جنگ کے شعلے پھیل رہے ہیں ، کسی بھی ممکنہ جنگ یا مسلم ممالک کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف جارحیت کا سدباب ہو سکے گا۔‘‘ (ایضاً :ص ۴۰۰) انہوں نے کہا ’’میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ دن اسلامی روایات کے شایانِ شان انداز سے منایا جائے گا۔‘‘ ( ایضاً: ص ۴۰۰) یکم نومبر ۱۹۴۰ء؁ کو ’یومِ مسلم ممالک‘ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ’’یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی مدد کریں ، وہ جہاں بھی ہوں ؛ چین سے لے کر پیرو تک۔ چونکہ اسلام نے یہ ہمارا فرضِ منصبی قرار دیا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو بچانے کی خاطر جائیں ۔ جلسے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے مسٹر جنا ح نے کہا کہ مسلم بھائیوں کی طرف دست ِاعانت دراز کرنا، مسلم لیگ کے آئین میں عقیدہ کی ایک شق ہے۔ واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ کب حملہ ہو جائے