کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 14
چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد ِاعظم کے افکار کی روشنی میں ایک فلاحی اسلامی مملکت کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ان میں بعض تو یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ پاکستان میں ’قائد اعظم کا اسلام‘ نافذکرنا چاہتے ہیں ۔مگر جب انہوں نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی پالیسی اپنائی تو اس کی تائید میں نہ تو علامہ اقبال کی فکر سے کوئی حوالہ پیش کیا اور نہ ہی قائداعظم کے اقوال سے اس کی تائید ثابت کی۔ علامہ اقبال نے تو اپنے اشعار میں ’پان اسلام ازم‘ اورملت ِاسلامیہ کے اتحاد کا اس کثرت سے اظہا ر کیا ہے کہ اگر ان کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تواچھا خاصا مجموعہ مرتب ہو جائے گا۔ان کے یہ اشعار تو بے حد معروف ہیں : ؎
؎ اُخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جوکابل میں ہندوستان کا ہر پیرو جوان بے تاب ہو جائے
؎ اگر تہران ہو عالم مشرق کا جنیوا مسلمانانِ عالم کی تقدیر بدل جائے !
؎ بتانِ رنگ خون کو توڑ کے ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی نہ افغانی !
؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے تابخاکِ کاشغر
ہمارا سیکولر طبقہ تو قائد اعظم کی محض ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے چند جملے ہی ازبر کیے ہوئے ہے۔دیگر دانشور بھی قائد اعظم کے ان بیانات کا ذکر کم ہی کرتے ہیں جن میں انہوں نے عالم اسلام سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ہم ذیل میں قائداعظم کے چند بیانات نقل کرتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلم ممالک کے خلاف کسی قسم کی جارحیت پر کس قدر تشویش میں مبتلا ہو جاتے تھے۔
۱۹۳۹ء میں جنگ ِعظیم دوم شروع ہو گئی تھی۔اس وقت مشرقِ وسطی میں مسلم ممالک کی آزادی خطرے میں تھی۔۲۹/ستمبر ۱۹۴۰ء کوقائداعظم کی زیر صدارت ’آل انڈیا مسلم لیگ کونسل‘ کا اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ
’’اس امر کے پیش نظر کہ حال ہی میں ہند میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ان کا اعادہ ہوا کہ یہ اِمکان موجود ہے کہ جنگ کے شعلے پھیل جائیں اورمسلم ممالک: مصر، فلسطین، شام اور ترکی کی آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف خارجی قوتوں کا جارحانہ اقدام ہو۔ صدر مسلم لیگ ایک دن مقرر کریں جس کا مقصد مسلمانانِ ہند کی جانب سے مسلم ممالک کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار اور تشویش کامظاہرہ ہو اور ان ملکوں کو یہ بتانا جن