کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 13
ننگی جارحیت کا شکار ہوئے اور اب تک مصائب کی بھٹی میں جل رہے ہیں ۔
اگر امریکہ بغداد پر تین ہزار بموں کی پہلے دن بارش کرتا ہے ، جیسا کہ علیٰ الاعلان اس کی دھمکی دی جا رہی ہے ، تو اس کا شکار کون ہوں گے؟ پاکستان پوری دنیا کا ٹھیکیدار نہیں بن سکتا، مگر ہم بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر آخر کیوں کر خاموش رہ سکتے ہیں ؟ اسلامی اُخوت اور انسانیت دونوں ہمیں ایسے خون آشام ہولناک مناظر دیکھ کر پر سکون کیسے رہنے دے سکتی ہے؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ملت ِاسلامیہ مختلف ملکوں میں تقسیم ہونے کے باوجود اُصولی اور نظریاتی طور پر ایک جسم واحد کی طرح ہے اورمسلمان خواہ کہیں ہوں ، اسی ملت کے اعضاء وجوارح ہیں ۔عراقی مسلمان تو کلمہ گو ہیں ، امریکہ اس طرح اگر کسی غیر مسلم ملک کے بے گناہ شہریوں کو بھی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنائے تو اسلام ایسی جارحیت کی حمایت کی اجازت نہیں دیتا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے ایسا ہے کہ جیسے کسی دیوار کی اینٹیں کہ ایک اینٹ دوسرے اینٹ کو سہارا دیتی ہے۔‘‘ (بخاری مسلم)
اسے ملت ِاسلامیہ کی سیاہ بختی نہ کہیے تو اور کیا نام دیں کہ آج اس دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کو سہارا دینے کی بجائے ایک دوسرے سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر رہی ہیں ۔ دشمنانِ اسلام جب چاہتے ہیں ، ایک اینٹ کو دوسری اینٹ سے بجا دیتے ہیں اور مسلمان ان کی دوستی کے فریب سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں !!
’سب سے پہلے پاکستان‘ اور فکر ِاقبال وقائد
ایک مسلمان کے لیے قرآن وسنت کی شہادت کے بعد کسی دوسرے فرد کی رائے قابل حجت نہیں ہونی چاہیے مگر ہمارے ہاں ایک طبقہ اسلام کی وہی تعبیر قابل قبول سمجھتا ہے جسے قومی مشاہیر کی آرا کی تائید حاصل ہو۔ جان بوجھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’علما کا اسلام‘ اور ’مشاہیر کا اسلام‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات ابد ی ہیں اورکوئی سچا مسلمان ان سے روگردانی نہیں کر سکتا۔
جو لوگ آج ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی بات کرتے ہیں ، وہ بارہا اپنے بیانات میں کہہ