کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 12
ہیں ، چاہے کوئی فرد ہویا قوم …‘‘
آگے چل کر اپنے مضمون کا اختتام وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں
’’ہماری دو بنیادی ترجیحات ہیں : ایک عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت اور دوسرے پاکستان کامفاد۔ اس حوالے سے میں پاکستان کے مفاد کو اور اسلام کے مفاد کو متصادم نہیں سمجھتا۔جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں ، وہ بے شک سمجھتے رہیں ۔‘‘ (روزنامہ جنگ: ۶/مارچ)
موصوف کی اسلامی حمیت جاگ اُٹھنے کا داعیہ تھا، یا ان کے ضمیر کی اندرونی آواز کہ صرف پانچ روز بعد یعنی۱۱/مارچ کو اپنے کالم میں وہ اس طرح رقمطراز ہوئے : ’’ پاکستان کو امریکی قرارداد کی حمایت کاکوئی جواز نہیں ہو گا۔ امریکی وزیر خارجہ کے تازہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے (یہ بات یقینی نہیں ) کہ انہیں اپنی قرارداد کے حق میں پاکستان کا ووٹ بھی ملنے کی اُمید ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ پاکستان کو امریکی وبرطانوی قراردادکے حق میں ہرگز ووٹ نہیں دینا چاہیے۔اس کا کوئی جواز نہیں ہو گا جو عذر ہمیں افغانستان کے حوالے سے دستیاب ہے، یہاں وہ دستیاب نہیں ۔ اُمید ہے، صدر مشرف قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔‘‘
ریاست کے اندرونی معاملات کی تنظیم کا مسئلہ ہو یا خارجہ پالیسی جیسے نازک بین الاقوامی اُمور کے متعلق ترجیحات کے تعین کی بات ہو، ایک اسلامی ریاست اور اسلامی قیادت کے لیے فیصلہ سازی کے لیے اگر کوئی چیز اساس اور معیار ہونے کامقام رکھتی ہے ، تو وہ صرف اور صرف قرآن وسنت کی تعلیمات ہیں ۔ ایک اسلامی ریاست کے وقتی مفادات بھی ان اَبدی تعلیمات کے تابع ہیں ۔قرآنِ مجید میں تو واضح ارشاد ہوتا ہے :
﴿ إنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إخْوَۃٌ﴾ ’’ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ‘‘
کیا کوئی بھائی اپنے دوسرے بھائی کے قتل کے لیے کسی وحشی قاتل کا دست وبازو بن سکتا ہے یا کسی بھی طرح اعانت ِ جرم کامرتکب ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ یہ انتہائی غیر منطقی اور لغو دلیل ہے کہ چونکہ صدام حسین ایک ظالم ڈکٹیٹر ہے اور اس نے پاکستان کے مقابلے میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیاہے ، لہٰذا آج پاکستان کو عراق کے خلاف امریکی حملے کی حمایت میں ووٹ دینا چاہیے۔ اسلامی حمیت کسی حکمران کے شخصی کردار کو پیمانہ بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ خلیج کی جنگ ۱۹۹۱ء میں کیا ہوا؟ صدام اور اس کا ظالم مقتدر ٹولہ تو محفوظ رہے، لاکھوں عراقی مسلمان اس