کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 11
پاکستان کے لیے بہترین لائحہ عمل‘ کے عنوان سے کئی اقساط میں مفصل اظہارِ خیال کیا۔انہوں نے قوم کی ’فکری رہنمائی‘ کا فریضہ ان الفاظ میں ادا کیا:
’’میری رائے یہ ہے کہ پاکستان اپنے ووٹ کے معاملے میں آخر وقت تک اِبہام رکھے اور بالآخر ہمیں کیا کرنا ہے، یہ فیصلہ آخری مرحلے پر عمائدین ِحکومت کریں ۔ میرے بعض دوست اس کو ’موقع پرستی‘ کا نام دیں گے۔ وہ کہیں گے کہ
’’ہمیں کھل کر مخالفت کرنی چاہیے۔ پاکستان کا مفاد کوئی چیز نہیں ہے۔ اُمہ کا مفاد سب سے اہم اور مقدم ہونا چاہیے۔ ’سب سے پہلے پاکستان کا مفاد‘ عالم اسلام اور اُمہ کے تصورسے انحراف اور بغاوت ہے۔‘‘
معاف کیجئے، میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے خیال میں پاکستان کے اور اسلام کے مفاد میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ کسی قسم کا تصادم نہیں ہے۔ جو چیز پاکستان کے مفاد میں ہے، وہ اسلام کے مفاد میں سمجھی جانی چاہیے اور جو چیز اسلام کے مفاد میں ہے، اسے پاکستان کے مفاد میں بھی سمجھنا چاہیے۔ان میں تضاد کا ذکر کرنا بالکل خلط ِمبحث ہے اور گہرائی میں نہ جاتے ہوئے بات کو اُلجھانے والی بات ہے۔‘‘
موصوف نے اس مسئلے پر محض اپنی خداداد حکمت ودانش پرانحصار ہی نہیں کیا بلکہ حسب معمول اپنی اس رائے کو قرآنی منشا بنا کر پیش کرنے کی کاوش بھی فرمائی۔مزید لکھتے ہیں
’’اس حوالے سے آپ میری ذاتی رائے بھی پوچھ سکتے ہیں ۔ بنیادی طور پر میری یہ رائے ہے کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں ، ہم اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عراق کے خلاف جنگ کی مخالفت کرتے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ موجودہ مرحلے پر اگر پاکستان کچھ فوائد حاصل نہیں کرتا تو نقصان میں بھی نہ رہے۔فائدے او رنقصان کی اہمیت تو ہر وقت رہتی ہے لیکن جب پاکستان کے سر پر ہندوستان جیسا ظالم اور جارح ملک بیٹھا ہو جس کی ایک ایک چیز پر نظر ہے جو اُسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنے میں مصروف ہو تو ایسی صورت میں اپنے بچاؤ کا سوچنا ضروری ہے۔اس حوالے سے قرآن پاک میں موجود سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر ۲۸ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ اگر دشمن طاقت ور ہو اور تم نے اس سے بچنا ہو، تم کسی اُلجھن میں پھنس جاؤ توایسی صورت میں آپ اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر سکتے ہیں جس سے وہ دھوکے میں آجائے اوروہ دھوکے میں مبتلا ہو جائے گاکہ یہ ہمارے ساتھ