کتاب: محدث شمارہ 268 - صفحہ 10
کونسل میں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر قرارداد کی مخالفت کرنی چاہیے۔ البتہ دو مقررین کا کہناتھا کہ ہمیں اپنے قومی مفادات کو یقینی بناتے ہوئے امریکہ کی مخالفت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ شاہد حامد نے کہا کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہم امریکہ کی صریحاً مخالفت کریں ۔ البتہ جنرل مشرف کو اتنی ہمت کرنی چاہیے کہ صدر بش سے کہیں کہ ا فغان مسئلہ پر ہم نے آپ کا ساتھ دیا، مگر اب ہم ساتھ نہیں دے سکتے۔جناب عارف نظامی نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے خلاف ووٹ دینے سے فوجی حکومت کے اِقتدار کو خطرہ ہے یا پاکستان کے مفادات کو ؟…انہوں نے کہا کہ عوام کے رجحان اور حکومتی پالیسی میں ٹکراؤ ہے۔ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ یہ عیسائی اور مسلم تہذیب کی جنگ نہیں ہے ، در اصل وہ ٹولہ جس کا امریکہ کی اسلحہ ساز صنعت اور تیل سے مفاد وابستہ ہے ، امریکہ پر قابض ہو گیا ہے۔یہ صرف عراق کی جنگ نہیں ہے بلکہ دنیا پر امریکہ کی بالادستی قبول کرنے کی جنگ ہے۔وہ عرب ملکوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے اسرائیل کومضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کوووٹ دینا مشرف کی مجبوری ہے۔قرار داد کے خلاف ووٹ دینے سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ خطرہ صرف مشرف کو ہے۔ جنرل نصیر اختر نے کہا کہ ہم ہر مسلمان ملک کے مسئلے میں جذباتی ہو جاتے ہے حالانکہ ہمیں سب سے پہلے ملکی مفاد کو سامنے رکھناچاہیے۔یہ اُمت ِمسلمہ کے خلاف جنگ نہیں بلکہ صرف عراق کے خلاف جنگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عراق نے اُمت ِمسلمہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صدام کا دماغی توازن صحیح نہیں ہے۔یورپ اپنے مفاد کی خاطر مخالفت کر رہاہے، اس لیے اس کو معاشی جنگ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر حسن رضوی نے کہاکہ عراق پر امریکی جارحیت کے مسئلے پر پاکستان کو واضح پالیسی اپنانی چاہیے، فی الحال ہم ابہام کا شکار ہیں ۔ہمیں ایسی کوئی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے پاکستان کو نقصان ہو۔انہوں نے کہاکہ اگر اقوام متحدہ کی ڈیڈ لائن کی حامل قرارداد سامنے آئے تو پاکستان کو مخالفت میں ووٹ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہ ہماری خارجہ پالیسی عوامی حمایت سے محروم ہے۔(نوائے وقت ،لاہور:۱۱/مارچ ) ٭ جناب ارشاد حقانی صاحب کا شمار ہمارے ملک کے دانشور اور مدبر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری حلقوں میں بھی ان کی آرا کو وقعت دی جاتی ہے۔ انہوں نے ’عراق کی صورتحال؛