کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 9
ہیں ۔ اس کے بعد ڈنڈا وہ آخری چیز ہے جس سے ایک پاک معاشرے میں سراُٹھانے والی ناپاکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ اب اس سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے کہ ایسے برحق نظام کوبدنام کرنے کے لئے آخری چیز کو پہلی چیز قرار دیتا ہے اور بیچ کی سب چیزوں کو نگل جاتا ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۰۲ء) 5. نظامِ فلاح و کفالت ِعامہ کوئی بھی نظام جو ایک عام آدمی کی حالت سدھارنے اور معاشی کفالت کی ضمانت نہ دے، فلاحی نظام کہلانے کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ اسلامی نظام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے یہ نہ صرف انسانوں کی روحانی و اخلاقی ترقی کے لئے اُصول فراہم کرتا ہے، بلکہ اس میں اسلامی ریاست کے شہریوں کی دنیاوی زندگی اور عدلِ اجتماعی کے بھی روشن اُصول موجود ہیں ۔ علامہ محمداقبال نے قائداعظم کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا تھا: ’’اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ میں اس کا حل ہے، اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں ترقی کا امکان ہے۔‘‘ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۳۷ء میں مسلم لیگ کے لئے جو بات کہی تھی، وہ دورِ حاضر میں کسی بھی اسلامی نظام کے نفاذ کا مقصد رکھنے والی جماعت پر منطبق کی جاسکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کی کامیابی اور عوام میں اس کی مزید پذیرائی کو یقینی بنانے کے لئے عوام کی معاشی حاجات کی تکمیل کے لئے اس کے عملی اقدامات کو یقینا ترجیحی حیثیت دی جانی چاہئے۔ دورِ حاضر کی ریاست فلاحی نصب العین کا حامل ایک عظیم سیاسی ادارہ ہے۔ جدید یورپ کی ریاستیں ، جہاں اِباحیت ِمطلقہ اور جنسی انارکی نے انسانوں کو حیوانوں کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے، ان ریاستوں کا اگر وجود قائم ہے اور وہاں ایک اجتماعی خوشحالی کی فضا پائی جاتی ہے، تو اس کی بنیادی وجہ وہاں کا ’ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور‘ ہے جس نے ایک عام آدمی کی معاشی کفالت کی ضمانت فراہم کی ہے۔ اسلام نے چودہ صدیاں پہلے جس فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا، اس میں نظامِ کفالت