کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 80
اس فیلڈ کے تربیت یافتہ افراد۔ انہوں نے کہا کہ دینی جماعتوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعبہ پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ پی ٹی وی اور اس پر نشر ہونے والے پروگراموں اور بیرونی چینلز کی حالت ِزار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں مجلس عمل پر زور دیا کہ وہ اس میں خیر کا پہلو تلاش کرنے کی جستجوکرے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس اِبلاغی یلغار نے ہمارے معاشرتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ہماری غفلت اور عدمِ توجہی کا شکار رہا تو اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ ہمارا روایتی حریف انڈیا اس حوالے سے بہت آگے ہے، حال ہی میں وہ کارگل پر فلم کے علاوہ طالبان پر ایک فلم انٹرنیشنل مارکیٹ میں لے کر آیاہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کو اس حوالے سے توجہ دینی چاہئے ، انہوں نے بسنت، ویلنٹائن ڈے اور نیوایئر نائٹ ایسے پروگراموں کے موقع پر سرکاری افسران کے رویہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دینی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں ۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں توقعات کا ہمالیہ تعمیر کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں ۔اُمت ِمسلمہ صدیوں کی ستم رسیدہ ہے، اس کے حالات ومسائل پیوند کاری کے بجائے سرجری کے متقاضی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دراصل ہمیں معاشی یا سیاسی بحران نہیں ،کردار کا بحران درپیش ہے اور اس بحران کا دائرۂ اثر سیاست کے ایوانوں سے لے کر محراب و منبر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحد اسمبلی کو چاہیے کہ وہ اپنے اختیارات اوردستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خیر اور فلاح کا کام کرے۔ امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک موقع ہے کہ دینی جماعتیں سرحد میں ممکن حد تک اصلاحات نافذ کرکے دوسرے صوبوں کے لئے ایک ماڈل بن سکتی ہیں ۔ سیمینار سے جناب کے ایم اعظم، ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور مجلس عمل صوبہ سرحد کے نائب صدر پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی خطاب کیا۔جبکہ کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر محمد امین صاحب نے انجام دیے۔
اس موقع پر مدیر الشریعہ جناب ابو عمار زاہد الراشدی اور محترم محمد عطاء اللہ صدیقی کو بھی خطاب کرنا تھا لیکن مولانا زاہد الراشدی نے مذاکرہ کا دورانیہ طویل ہوجانے کے سبب چند کلمات پر ہی اکتفا کیا جبکہ محترم عطاء اللہ صدیقی صاحب بعض دفتری مصروفیات کی بنا پر تشریف نہ لاسکے۔ ۳/ بجے سے جاری یہ مذاکرہ ساڑھے آٹھ بجے رات اپنے اختتا م کو پہنچا۔ ٭٭