کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 8
حدود آرڈیننس کے نفاذ کو ۲۵ برس ہونے کو ہیں ، مگر پاکستان میں آج تک کسی زانی مجرم کو سنگسار کیا جاسکا ہے نہ کسی چور کے ہاتھ کاٹے جاسکے ہیں ، کیونکہ اس طرح کے مقدمات جب اعلیٰ عدالتوں میں پہنچتے ہیں تو مقدمہ میں کسی سقم یا کسی اور و جہ سے عموماً ایسی سزاؤں کو ساقط کردیا جاتا ہے یا عدالتیں مجرموں کو ریلیف دیتے ہوئے حدود کو بعض اوقات تعزیر میں بدل دیتی ہیں ۔ جب عملی حقائق یہ ہیں تو پھر متحدہ مجلس عمل کی حکومت کو اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لئے قبل از وقت نعرے لگانے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب ان سزاؤں پر عملدرآمد نہیں کراسکتے، تو عوام سے ان کے نفاذ کے وعدے کس بنا پر کرتے ہیں ۔ خواہ مخواہ اپنے خلاف منفی پراپیگنڈہ کے اسباب پیدا کرنا کسی بھی طرح حکمت و دانش کا تقاضا نہیں ہے۔ مندرجہ بالا مشورہ سے یہ تاثر نہیں لینا چاہئے کہ خدانخواستہ ہم اسلامی سزاؤں کے نفاذ پر کوئی معذرت خواہانہ موقف رکھتے ہیں ۔ یہ صرف ہمارا مشورہ ہی نہیں ، متحدہ مجلس عمل کے بعض اہم سرپرستوں اور مربیوں کی رائے بھی ان حالات میں اس سے مختلف نہیں ہے۔ ماہنامہ ’الحق‘ (مدیراعلیٰ: مولانا سمیع الحق)بھی مجلس عمل کیحکومت کو ہدایت کرتے ہوئے اپنے اداریہ میں رقمطراز ہے : ’’قرآن و سنت، حدود و تعزیرات کی تنفیذ امربالمعروف و نہی عن المنکر کو جاری کرنا بحیثیت ِحکمران طبقے کے، آپ کی اہم ذمہ داری ہے لیکن تنفیذ احکام میں ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ﴾ کا پہلو نمایاں ہونا چاہئے اور تدریج کا عمل اختیار کرنا چاہئے کیونکہ یہی اُصول، اُسلوب اور طریقہ کار اسلام قرآن، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا رہا ہے۔ بعض فروعی اور ثانوی مسائل اور جزئیات میں ضرورت سے زیادہ شدت پسندی عوام میں ناپسندیدگی کی وجہ بنتی جارہی ہے۔ آپکا عوام اور شہریوں کے ساتھ برتاؤ، سلوک، رویہ نرم اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی اور مصلحت پسندانہ ہونا چاہئے۔‘‘ جماعت اسلامی جو متحدہ مجلس عمل کی اہم جماعتوں میں سے ہے، کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ الفاظ بھی پیش نظر رہنے چاہئیں : ’’لوگ بڑا غضب کرتے ہیں کہ اسلام کے پروگرام کی ساری تفصیل چھوڑ کر صرف اس کی سخت سزاؤں پر گفتگو شروع کردیتے ہیں ۔ اسلام پہلے عام لوگوں میں ایمان پیدا کرتا ہے۔ پھر عوام کے اخلاق کو پاکیزہ بناتا ہے۔ پھر تمام تدابیر سے ایسی مضبوط رائے عامہ تیار کرتا ہے جس میں بھلائیاں پھلیں پھولیں اور برائیاں پنپ نہ سکیں ۔ پھر معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام ایسا قائم کرتا ہے جس میں بدی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے۔ وہ ان تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے جن سے فواحش اور جرائم نشوونما پاتے